تیرے حیرت زدگاں اور کہاں جاتے ہیں
تیرے حیرت زدگاں اور کہاں جاتے ہیں
کہیے گر آپ سے جاتے ہیں تو ہاں جاتے ہیں
وے نہیں ہم کہ ترے جور سے اٹھ جاتے ہیں
جی ہے جب لگ نہیں اے جان جہاں جاتے ہیں
کون وہ قابل کشتن ہے بتاؤ ہم کو
آپ جو اس پہ لئے تیر و کماں جاتے ہیں
جیوں نگیں رو سیہی نام سے یاں حاصل ہے
نامور وے ہیں جو بے نام و نشاں جاتے ہیں
سنگ ہستی سے کہ تھا مانع راہ مقصود
جست کر مثل شرر گرم رواں جاتے ہیں
تجھ کو فہمید کہاں شیخ کہ سمجھے یہ رمز
واں نہیں بار ملک یار جہاں جاتے ہیں
مجھ کو اس طفل پری رو نے کیا دیوانہ
ہوش سے دیکھ جسے پیر و جواں جاتے ہیں
غیر جوہر نہیں اعراض سے ان کو کچھ کام
رنگ و بو پر نہیں صاحب نظراں جاتے ہیں
خواب بیدارؔ مسافر کے نہیں حق میں خوب
کچھ بھی ہے تجھ کو خبر ہم سفراں جاتے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |