تیرے عاشق کو طلب گل کی نہ گلزار کی تھی

تیرے عاشق کو طلب گل کی نہ گلزار کی تھی
by جمیلہ خدا بخش

تیرے عاشق کو طلب گل کی نہ گلزار کی تھی
جوش وحشت میں ہوس وادیٔ پر خار کی تھی

تیرے جھونکوں نے اڑایا ہے جسے وقت سحر
اے صبا خاک وہ میرے دل بیمار کی تھی

چمن عشق و محبت میں بسان نرگس
آنکھ حسرت سے کھلی طالب دیدار کی تھی

شب تاریک سے فرقت کی میں کیوں گھبراتا
وہ سیاہی بھی ترے گیسوئے خم دار کی تھی

خواہش دید پہ بیکار بگڑ جاتے ہیں
یہ تو فرمائیے کیا بات یہ تکرار کی تھی

وہ جو اٹھے تو قیامت نے اٹھایا سر کو
وہ بھی محتاج مگر قامت دل دار کی تھی

ضعف نے کر دیا خاموش جمیلہؔ ورنہ
ہم سے رونق تو کبھی کوچۂ دل دار کی تھی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse