تیرے عالم کا یار کیا کہنا
تیرے عالم کا یار کیا کہنا
ہر طرف ہے پکار کیا کہنا
اف نہ کی درد ہجر ضبط کیا
اے دل بے قرار کیا کہنا
وعدۂ وصل ان سے لوں کیوں کر
میرا کیا اختیار کیا کہنا
کیا ہی نیرنگیاں دکھائی ہیں
میرے باغ و بہار کیا کہنا
کیسے عاشق ہیں ان سے جب پوچھا
بولے بے اختیار کیا کہنا
مشت پر بھی گلوں کے گرد رہے
آفریں اے ہزار کیا کہنا
ترچھی نظریں چھری کٹاری ہیں
چشم بد دور یار کیا کہنا
گلشنوں میں یہ رنگ روپ کہا
لا جواب اے نگار کیا کہنا
دم عیسیٰ کو مات کرتی ہے
اے نسیم بہار کیا کہنا
امتحاں کر چکے تو وہ بولے
اے مرے جاں نثار کیا کہنا
اس کے کوچے میں بیٹھ کر نہ اٹھا
واہ میرے غبار کیا کہنا
جانتے ہیں کہ جان دوگے شرفؔ
اس کو پھر بار بار کیا کہنا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |