تیرے مژگاں ہی نہ پہلو مارتے ہیں تیرے

تیرے مژگاں ہی نہ پہلو مارتے ہیں تیرے
by میر محمدی بیدار

تیرے مژگاں ہی نہ پہلو مارتے ہیں تیرے
ہم سری رکھتے ہیں ابرو بھی دم شمشیر سے

دیکھ یہ کرتا ہے غم کی لذتیں ہم پر حرام
ہو سمجھ کر آشنا اے نالہ ٹک تاثیر سے

ہوں میں وہ دیوانۂ نازک مزاج گل رخاں
کیجئے زنجیر جس کو سایۂ زنجیر سے

سوز دل کیونکر کروں اس شوخ کے آگے بیاں
شمع کی مانند جلتی ہے زباں تقریر سے

گرچہ ہوں بیدارؔ غرق معصیت سر تا بہ پا
پر امید مغفرت ہے شبر و شبیر سے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse