تیرے کوچے میں جو ہم با دیدۂ تر بیٹھتے
تیرے کوچے میں جو ہم با دیدہ تر بیٹھتے
جوش طوفاں سے زمیں میں سینکڑوں گھر بیٹھتے
چارہ گر بھی ہم نشیں تھا رات کو ناصح بھی تھا
ورنہ بیتابی سے ہم کیا جانے کیا کر بیٹھتے
ہو گئی محفل تری کیا بے ادب بے قاعدہ
جو کھڑے رہتے تھے وہ اب ہیں برابر بیٹھتے
جب کیا شکوہ کہ محفل میں رہے ہم تم سے دور
اس نے جھنجھلا کر کہا کیا میرے سر پر بیٹھتے
جس کی قسمت میں ہو گردش کس طرح بیٹھے کہیں
ہم سے آوارہ ترے کوچے میں کیوں کر بیٹھتے
داغؔ تم نے کیوں کیا ہے نام وحشت کا خراب
اس سے تو بہتر یہی تھا چین سے گھر بیٹھتے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |