تیر نظر سے چھد کے دل افگار ہی رہا
تیر نظر سے چھد کے دل افگار ہی رہا
ناسور اس میں صورت سوفار ہی رہا
دنیا سے ہے نرالی عدالت حسینوں کی
فریاد جس نے کی وہ گنہ گار ہی رہا
سودائیوں کی بھیڑ کوئی دم نہ کم ہوئی
ہر وقت گھر میں یار کے بازار ہی رہا
نرگس جو اس مسیح کی نظروں سے گر گئی
اچھے نہ پھر ہوئے اسے آزار ہی رہا
گل زار میں ہمیشہ کیے ہم نے چہچہے
صیاد و باغباں کو صدا خار ہی رہا
آئی نہ دیکھنے میں بھی تصویر یار کی
آئینہ درمیان میں دیوار ہی رہا
سرمے سے طور کے بھی نہ کچھ فائدہ ہوا
آنکھوں کو انتظار کا آزار ہی رہا
مجنوں نے میرا داغ جگر سر پہ رکھ لیا
یہ گل وہ ہے جو طرۂ دستار ہی رہا
کچھ بھی نہ مفسدوں کی دراندازیاں چلیں
اک انس مجھ سے ان سے جو تھا پیار ہی رہا
بولے وہ میری قبر جھروکے سے جھانک کر
یہ شخص مر کے بھی پس دیوار ہی رہا
ممکن نہ پھر ہوئی قفس گور سے نجات
جو اس میں پھنس گیا وہ گرفتار ہی رہا
عالم میں حسن و عشق کا افسانہ رہ گیا
یوسف ہی رہ گئے نہ خریدار ہی رہا
صیاد کو کبھی نہ مصیبت نے دی نجات
بلبل کے صبر میں یہ گرفتار ہی رہا
کیا جانے اس غریب کو کس کی نظر ہوئی
ان انکھڑیوں کا شیفتہ بیمار ہی رہا
تو رہ گیا فقط ترے سودائی رہ گئے
یوسف رہے نہ مصر کا بازار ہی رہا
راحت کسی حسیں سے بھی پائی نہ اے شرفؔ
چاہا جسے وہ درپئے آزار ہی رہا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |