تیر پر تیر لگے تو بھی نہ پیکاں نکلے

تیر پر تیر لگے تو بھی نہ پیکاں نکلے
by میر حسن دہلوی

تیر پر تیر لگے تو بھی نہ پیکاں نکلے
یا رب اس گھر میں جو آوے نہ وہ مہماں نکلے

نیک و بد میں جو نہیں جنگ عدم میں تو بھلا
کیوں گل و خار بہم دست و گریباں نکلے

دست چالاک جنوں سینہ کو بھی کر دے چاک
تا کہیں پہلو سے میرے دل نالاں نکلے

کون سی رات وہ ہووے کہ جو آوے شب وصل
کون سا روز وہ ہو جو شب ہجراں نکلے

گلشن دل میں بھی تھی اپنی کچھ الٹی تاثیر
تخم امید جو بوئے گل حرماں نکلے

کر نظر رخ کو ترے کفر سے نکلے کافر
زلف کو دیکھ تری دیں سے مسلماں نکلے

جتنا کہتے ہیں نکلتا ہے حسنؔ گھر سے ترے
غصے ہو ہو یہی کہتا ہے ابھی ہاں نکلے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse