تیغ ابرو کا جو قتیل ہوا

تیغ ابرو کا جو قتیل ہوا
by جمیلہ خدا بخش

تیغ ابرو کا جو قتیل ہوا
وہ شہیدوں میں بے عدیل ہوا

چشمۂ اشک چشم پر نم تھا
خلد میں جو کہ سلسبیل ہوا

آبرو دی ہے انکساری نے
خاکساری سے میں جلیل ہوا

خود فرستندہ تھا فرستادہ
وحی لا کر وہ جبرئیل ہوا

ہوں وہ عاصی کہ شعلۂ دوزخ
نار ہی گلشن خلیل ہوا

جز غم یار دشت غربت میں
کون ایسا تھا جو کفیل ہوا

اب خدا ہی سے لو لگاؤں گا
دے کے دل بت کو میں ذلیل ہوا

شب فرقت جو خط لکھا میں نے
زلف جاناں سا وہ طویل ہوا

اے جمیلہؔ یہ دل ہے دشمن جاں
مرگ عاشق کا جو دلیل ہوا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse