تین پیسے کی چھوکری

تین پیسے کی چھوکری
by قاضی عبدالغفار
319634تین پیسے کی چھوکریقاضی عبدالغفار

(الف)

آج سے پندہ سو برس پہلے!

بائی زنطہ کے شاہی سرکر میں، بادشاہ کے وحشی جانوروں کا داروغہ ایک بوڑھا شخص تھا۔ بہت بوڑھا مگر اپنے کام میں بہت ہوشیار۔ اس نے اپنے بوڑھاپے کا سہارا ایک بارہ سالہ چھوکری کو بنالیا تھا۔ جس کو نہ معلوم وہ کہاں سے لایا تھا۔ وہ نہ اس کی بیٹی تھی نہ پوتی، نہ رشتہ دار نہ اس کی ہم وطن لیکن اس نے اس کو منہ بولی بیٹی بنا لیا تھا۔ اور بیٹی ہی کی طرح چاہتاتھا۔ کسی کو معلوم نہ تھا کہ اس چھوکری کی قوم کیا ہے۔ اس کا مذہب کیا ہے اور وہ کس طرح بڈھے کے پاس پہنچی۔

بائی زنطہ کے عظیم الشان دارالسلطنت میں شہنشاہ جسٹنین کا پرچم اقبال بلند تھا۔ اس زمانہ کی تہذیب اور بائی زنعلی مخلوق کا تمدن، خصوصاً امراء اور عمائدین کی معاشرت، یونان و روما، کی قدیم تہذیب سے بھی دس پانچ قدم آگے تھی۔

شہنشاہ اور اس کے امرا و اراکین سلطنت کےاسباب تفریح و تعیش میں سے ایک یہ سرکر بھی تھا جس میں ہزاروں قسم کے وحشی اور جنگلی جانور پالے جاتے تھے۔ ۱۲برس کی چھوکری کودنیا میں کوئی کام نہ تھا۔ سوائے اس کے کہ سرکس کے درندوں میں صبح سے شام تک کھیلتی رہتی۔ وہ حسین بھی تھی اور شوخ بھی۔ اور دل اس کاایسا ہی بے خوب تھا جیسا کہ وحشی درندوں کا۔ اسے معلوم ہی نہ تھا کہ خوف کس چیز کا نام ہے۔ وہ شیروں کی بال پکڑ کر لٹک جاتی تھی۔ اور دوپہر کو کھیلتے کھیلتے اکثر ہاتھی کے پیٹ کے نیچے لیٹ کر سوجاتی تھی۔ اس کی دنیا میں اس کے رفیق اور یار، شیر اور ہاتھی اور ریچھ ہی تھے۔

دن بھر بڈھا سرکس کے جانوروں کی خدمت میں مصروف رہتا۔ اور چھوکری اپنے کھیل میں۔ شام کو وہ دونوں گھر چلے جاتے۔ مگر ایک دن شام کو چھوکری سرکس سے تو چلی گئی۔ لیکن گھر نہ پہنچی۔ رات بھر بڈھا اس کا انتظار کرتا رہا، رات بھر وہ غائب رہی۔ صبح کو وہ ہنستی ہوئی گھر آئی اور بڈھے کے ہاتھ پر تین چمکتی ہوئی اشرفیاں رکھ دیں۔ یہ اس کے حسن کا پہلا سودا تھا۔ یہ اس کی جوانی کاپہلا منافع تھا۔ گزری ہوئی شام اور موجودہ صبح کے درمیان، گزشتہ شب کی تاریکی میں، بڈھے کی چھوکری عورت بن گئی۔

راتوں کو غائب رہنے کا سلسلہ جاری رہا۔ اور سرکس کے درندوں کے ساتھ جو کھیل کود ہوا کرتا تھا۔ وہ اب دوسری قسم کے حیوانوں کے ساتھ کھیلا جانے لگا!

یہ آغاز تھا، ملکہ بازنطہ کی حکومت کا!تھوڈورا کی جوانی اب ہر طرف سے آنکھوں، نظروں اور دلوں کو کھینچ رہی تھی۔ وہ شاہی سرکس میں ناچا کرتی تھی، اور بائی زنطہ کےہزارہانظر باز ہر شام کو اس کے حسن کی خاطر سرکس میں جمع ہوا کرتے تھے۔ شاہی دربار کے رکن رکین بشب و جلیس نے تو ایک دن تھوڈورا کو ناچتے ہوئے دیکھ کر بے اختیار کہہ دیا،

’’گھانس کا یہ پھدکتا ہوا کیڑا کسی دن سارے بائی زنطہ میں اچھلے گا۔۔۔ دیکھنا!‘‘

لیکن اس وقت بشب کو بھی خبر نہ تھی کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ ستم ظریف قدرت اس ناچنے والی کو نہ معلوم کہاں سے کہاں تک اچھالنے والی تھی۔

تھوڈورا سرکس کے نظربازوں سے تھک گئی۔ ایک ہی کھیل کا بار بار کھیلنا اس کو کبھی بھاتا نہ تھا۔ اب وہ منظرعام پر تھرکنے کی بجائے مخصوص خلوتوں میں ایک بلند نشین حسن فروش بن بیٹھی۔ حسن فروشی اس عہد کی تہذیب میں کوئی ایسی معیوب بات نہ تھی بلکہ حسن وہوس کے یہ کھیل تماشےتو بائی زنطی تہذیب کے جزولازمی تھے۔ امرا طوائفوں کی نگہ التفات کو سرمایہ افتخار سمجھتے تھے اور عوام کی زندگی ان رنگین تتلیوں کے بغیر بے رنگ ہوجاتی تھی۔ حسین تھوڈورا اپنی دوکان حسن کھولتے ہی دلوں کی مالک، آنکھوں کا تارا کلیجوں کی ٹھنڈک اور گھروں کا چراغ بن گئی۔ امرا اس کے سنگِ آستان پر جبین نیاز رکھتے۔ دل چلے سپاہی اورمیدانِ جنگ کے سورما اس کے اشارہ ابرو کا انتظار کرتے۔ ان کی خون آشام تلواریں، اس کے قدموں میں پڑی ٹھوکریں کھایا کرتیں! اہل علم اوراہل مذہب بھی اس دیوی کے استھان پر سرجھکاتے تھے۔ اور سرکس کی ناچنے والی چھوکری بائی زنطہ کی حسن پرست دنیا میں ایک ’’ملکۂ عالم‘‘ تھی۔ کہ اس کا سکہ ہر طرف جاری تھا۔

نوجوان شہنشاہ جسٹینین بارہا اس کو تھیئٹر میں ناچتے، باغوں میں اٹھکیلیاں کرتے اور باسفورس کے ساحل پر ایک ہجوم عاشقال کے ساتھ چہل پہل کرتے دیکھ چکا تھا۔ اس کےدل میں خلش تھی۔ تیر اپنے نشانہ پر بیٹھ چکا تھا۔

ایک شب شہنشاہ نے اپنے محافظ دستہ کے کپتان کو موتیوں کا ایک بیش قیمت ہار دیکر تھوڈوراکے گھر بھیجا۔ اور پیام دیا کہ وہ شاہی خلوت میں آئے۔ آدھی رات کے قریب شاہی کپتان تھوڈورا کے دروازے پر آیا۔ اس وقت تھوڈورا کی خلوت میں اس کا کوئی چاہنے والا موجود تھا۔ اس نے کپتان کو گھر کے اندر نہ بلایا بلکہ خود دروازے پر آگئی۔ شہنشاہ کا پیام سن کر اس نے کہا،

’’شہنشاہ کی یاد فرمائی کا بہت بہت شکریہ،مگر یہ ہار واپس لے جائیے۔ میں بکاؤ نہیں ہوں، شہنشاہ سے کہہ دیجیے کہ اس ہار سے کسی دوسری حسین چھوکری کاحسن خریدلیں۔۔۔ میری قیمت اس ہار سے بہت زیادہ ہے۔‘‘

اب وہ سرکس کی بجائے ایک عظیم الشان سلطنت کے شیر اور ہاتھی سے بے خوف ہوکر کھیل رہی تھی!

اسی شب پھر ایک شاہی مصاحب، شہنشاہ کا پیام، بہت سے تحائف اور اکرام و الطاف کے بہت سے وعدے لے کر آیا۔ تھوڈورانےدوسرا پانسہ پھینکا،

’’شہنشاہ سے کہہ دیجیے کہ وہ اس کنیز کے طالب ہیں تو اس کے سیاہ خانہ پر تکلیف فرمائیں۔

‘‘بائی زنطہ کے شہنشاہ سے، جس کی خاک پا بادشاہوں اور گردن کشوں کی سجدہ گاہ تھی، یہ گستاخانہ سوال و جواب، موت سے کھیلنا تھا۔ مگر تھوڈورا نے بہت بڑی بازی لگائی تھی۔۔۔

شب کی آخری ساعتوں میں بالآخر شہنشاہ خود اس کے دروازے پر آیا۔ جس وقت وہ اندر داخل ہوا تو اس نے دیکھا کہ تھوڈورا ایک صلیب کے سامنے جھکی ہوئی عبادت میں مشغول ہے۔ بہت دیر بعد اس نے اس طرح کہ وہ گویا کسی دوسرے عالم میں ہے۔ نظر اٹھاکر شہنشاہ کی طرف دیکھا۔

’’تم ہی تھوڈورا ہو؟‘‘ شہنشاہ نے سوال کیا۔

’’ہاں حضور! میرا نام تھوڈورا ہے۔ میں شہنشاہ کے سرکس میں ناچا کرتی تھی۔‘‘

’’تم وہی ہے جس کو ہرملاح تین پیسے میں خرید لیا کرتا ہے؟‘‘ شہنشاہ کے تیور بگڑے ہوئے تھے۔

تھوڈورا نے کہا،

’’جی ہاں! میں وہی ہوں!‘‘

’’پھر تم شہنشاہ کی خلوت میں آنے سے کیوں انکار کرتی ہو؟‘‘ اب جسٹینن کا غصہ تیز ہوتا جاتا تھا۔

’’حضور!‘‘ تھوڈورا نے دست بستہ عرض کیا۔ ’’ملاح کے پاس میں اس لیے جاتی ہوں کہ اس کی جیب میں تین ہی پیسے ہوتے ہیں۔ اور وہ سب میں لے لیتی ہوں۔ وہ تین پیسہ دے کر اپنا سارا سرمایہ مجھے دے ڈالتا ہے۔‘‘

’’تو کیا تم اپنے چاہنے والوں سے جو کچھ ان کے پاس ہو سب ہی لے لیتی ہو؟‘‘

’’ہاں حضور! میں یہی کرتی ہوں، اور یہی میری قیمت ہے!‘‘

’’تو پھر مجھ سے تم کیا مانگتی ہو؟‘‘

’’آپ کا تاج و تخت! اے بائی زنطہ کے شہنشاہ!‘‘

اس طرح چند روز بعد یہ ’’تین پیسے کی چھوکری‘‘ شہنشاہ بائی زنطہ کی مشہور عالم ملکہ تھوڈورا بن کر اس زمانہ کی سب سے بڑی اور عظیم الشان سلطنت کے سیاہ و سفید کی مالک بنی۔

وہ اپنا حسن بیچتے بیچتے ملکہ عالم بنی۔ اور ملکہ عالم بن کر، جب اس کو حسن فروشی کی ضرورت نہ رہی۔ تو اس نے بائی زنطہ کےخوبرو نوجوانوں کی جوانی خریدنا شروع کردی! اس کی ہوس پرستی کی داستانیں اسی قدر مشہور ہیں جن قدر اس کا حسن۔

(ب)

مسیح کی پیدائش کے پانچ سو برس بعد

مائی زنطہ کے دارالسطنت میں

شہنشاہ حسٹینن اور اس کی عیش پرست ملک تھوڈورا کا زمانہ

بائی زنطہ کی شاہرا پر تماشائیوں کا ہجوم ہے۔ شنہشاہ اور ملکہ عالم کی رعایا سڑک کے دونوں طرف ہزاروں کی تعداد میں جمع ہے۔ یہ وہ سڑک ہے جو شاہی محل ایاصوفیہ کو جاتی ہے۔ دوزویہ سپاہی کھڑی ہیں۔ سپاہیوں کے عقب میں اہل شہر، امراء اور رؤسا سب سب ملکہ عالم کی سواری کے منتظر ہیں۔

ہفتہ میں ایک دفعہ ملکہ تھوڈورا۔ ایا صوفیہ میں عبادت کرنےجایا کرتی ہیں۔ یہ جلوس قابل دید ہوتا ہے۔ ملکہ عالم کے شاندار جلوس کو دیکھنےوالے گھنٹوں پہلے سے سڑکوں پر جمع ہوتے ہیں۔ اور دارالسطنت میں ہفتہ کا یہ ایک دن گویا ایک عام یوم تعطیل ہوتا ہے۔۔۔ وہ ملکہ عالم کی عباد ت کا دن ہے!

دیگر یا کے محافظ دستہ کا ہراول، سرخ وردیاں پہنے، شاندار گھوڑوں پر سوار، آہستہ آہستہ چلا آتا ہے۔ سواوروں کی وردیاں اور ان کے چمکتے ہوئے اسلحہ دھوپ میں اس قدر چمک رہے ہیں کہ دیکھنے والوں کی آنکھیں بند ہوجاتی ہیں۔ اس دستہ کے پیچھے ایک مرصع تخت رواں ہے۔ اور اس تختِ رواں پر ایک مطلا شامیانہ کے نیچے ملکہ عالم تشریف رکھتی ہیں۔ تختِ رواں کے سامنے امراء اور اراکین سلطنت کی نوجوان اور حسین لڑکیاں ہاتھوں میں پھولوں کے گجرے لیےہوئے اور آٹھ چھوکریاں ہاتھوں میں چاندی کی گھنٹیاں لیے ہوئے چل رہی ہیں۔ چاندی کی گھنٹیاں تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد بجائی جاتی ہیں۔ تخت رواں کے سامنے شاہی منصب وار قرمزی رنگ کا لمبا کپڑا بچھاتے ہوئے آتے ہیں اور ملکہ کی سواری جب اس کپڑے پر گزر جتی ہے تو اس کو لپیٹ لیتے ہیں۔ منصب داروں کی جماعتیں یہ خدمت انجام دیتی آتی ہیں تاکہ ملکہ عالم کے تخت رواں کا سایہ ناپاک زمین پر نہ پڑنے پائے۔

تخت رواں، جواہر اور سونے چاندی کی ضیا کاری کا ایک عجیب و غریب نمونہ ہے۔ اس کی چمک میں سورج کی شعاروں نے گویا آگ لگا دی ہے۔ اسطرح بائی زنطہ کی ملکہ، دورویہ خلائق کے سلاٹوں کا جواب سر کے اشارے سے دیتی ہوئی مسیح کی درگاہ میں جا رہی ہے۔

سلطنت کے دیہاتی علاقہ کا رہنے والا ایک خوبصورت نوجوان اسیف جو چند روز ہوئے دارالسطنت کی سیر کرنے آیا تھا۔ اس وقت ایک کنویں کی دیوار پرکھڑا ہواشاہی جلوس کاتماشہ دیکھ رہا ہے۔ اس کے قریب اس کا ایک شہری دوست کھڑا ہے۔ سواری قریب آگئی۔ دفعتاً ملکہ عالم کی نظر اس دیہاتی نوجوان پر پڑی، مگر وہ نہ سمجھا، وہ سمجھا کہ یہ غلط انداز نظر برسر راہ تھی۔ مگر وہ خوش تھا کہ آج اس نے ملکہ عالم کو اچھی طرح دیکھ لیا۔ بادشاہوں کا دیدار عقیدتمند رعایا کے دلوں کو پھول کی طرح کھلا دیتا ہے۔

استیف بیچارے نے اپنی عمرمیں پہلے کبھی شاہانہ طنطنہ کا یہ مظاہرہ کب دیکھا تھا۔ وہ اس نظارہ میں محو تھا کہ ملکہ کی سواری بالکل اس کے سامنے آگئی۔ ایک لمحہ کے ہزارویں حصہ میں اس نے یہ محسوس کیا کہ گویا اس کی نظر ملکہ عالم کی نظر سے ملی ہے۔ گھبرا کر اس نے نظریں نیچی کرلیں۔ اتنی ہی دیر میں سواری آگے نکل گئی۔ استیف کادل دھڑک رہا تھا، اس کو پسینہ آگیا تھا۔

شاہی سواری کے پیچھے پیچھے ایک منصب دار چاندی کے پھول لٹاتا ہوا جا رہا تھا۔ غریب اور امیر بڑھ بڑھ کر ان پھولوں کو لوٹ رہے تھے۔ جس کے ہاتھ ایک پھول آگیا اس کو گویا بڑی سعادت نصیب ہوئی۔ منصب دار جب بڑھتے بڑھتے استیف کے قریب پہنچا تو اس نے اپنا ہاتھ لوگوں کے اوپر سے استیف کی طرف بڑھایا۔ اس کے ہاتھ میں چاندی کے پھول اورایک تازہ گلاب تھا۔ استیف نے۔۔۔ جیسے کوئی مخمور ہو یا عالم خواب میں۔۔۔ ہاتھ بڑھاکر گلاب لے لیا، وہ چاہتاتھا کہ کچھ کہے، شکریہ ادا کرے لیکن اتنی ہی دیر میں منصب دار بہت آگے نکل چکا تھا۔

سواری باد بہاری گزرگئی، مجمع منتشر ہو رہا ہے، استیف گلاب کاسرخ پھول ہاتھ میں لیے جا رہا ہے۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر شاہی منصب دار خاص طور پر اس کی طرف کیوں مائل ہوا۔ ہزارہا آدمیوں کے مجمع میں گلاب کا پھول تنہا اسی کو کیوں دیا گیا؟

گلاب بہت بڑا، اور بہت خوبصورت تھا۔ وہ اس قسم کا پھول تھا جس کے چند ہی درخت شاہی باغیچے میں تھے اورشاہی باغیچہ کے علاوہ کہیں نہ تھے۔ یہ گلاب بائی زنطہ میں شاہی محل کےعلاوہ کہیں میسر نہ آسکتا تھا۔

مجمع سے باہر نکل کراستیف نے بغور اس پھول کو دیکھا۔ اس کی پتیوں کے نیچے ایک پرزہ بندھا ہوا تھا۔ اس پرزہ پر سرخ رنگ سے یہ الفاظ لکھے ہوئے تھے،

’’شاہی محل کے جنوبی دروازے پر۔۔۔ آج دس بجے۔۔۔ یہ پھول لے کر آؤ۔۔۔ اس پھول سے تمہاری قسمت کادروازہ کھلے گا۔

استیف ششدر تھا، وہ کچھ بھی نہ جانتا تھا، کچھ نہ سمجھ سکتا تھا کہ اس واقعہ کے معنی کیا ہیں۔ وہ کیوں محل کے دروازے پر جائے۔ اس کی قسمت کا دروازہ کیونکر کھل سکے گا۔ اس کا دل کہتا تھا،

’’جانا چاہیے۔ اگر یہ شاہی اکرام والطاف کا اشارہ ہے تو تیری قسمت جاگ جائے گی۔ کیا معلوم تو شاہی دربار میں منصب دار بنادیا جائے۔ کیا معلوم تو کیا ہوجائے۔۔۔ جانا چاہیے۔‘‘

عقل کہتی تھی،

’’کوئی دھوکہ، کوئی فریب تو نہیں۔ بھلا کہاں ملکہ عالم، کہاں تو غریب دہقانی، منصب دارنے تیرے گنوارپن کا مذاق نہ اڑایا ہو۔ یا کسی دشمن نے تجھے دھوکہ دے کر نہ بلایا ہو۔۔۔‘‘

عقل اور دل کا جھگڑا ختم نہ ہوتا تھا۔ لیکن قدم دل کے فرمانبردارتھے، عقل کا زور ان پر نہ چل سکا۔ وقت مقررہ سے کچھ پہلے ستیف کے قدم بلا ارادہ شاہی محل کی طرف بڑھنے لگے۔ کبھی اپنے دل کی، کبھی اپنی عقل سے الجھتا ہوا وہ چلا جا رہا تھا۔۔۔ دل کہتا،

’’تیرا انتظار کیا جا رہا ہے۔ قدم بڑھا۔‘‘

عقل کہتی، ’’

تو بے وقوف ہے، تیرا اور انتظار! دیوانے! سپاہیوں اور دربانوں کی ٹھوکریں کھائے گا!‘‘

جوانی کا خون گرم تھا۔ دل کی حرکت تیز تھی، چہرہ پر سرخی جھلک رہی تھی۔ پیشانی پر پسینہ کے قطرات تھے۔ اس طرح استیف شاہی محل کے دروازہ پر پہنچا۔ اس کو یہ خبر نہ تھی کہ دروازہ مغربی ہے یا مشرقی! وہ بڑھا چلا گیا!

شاہی محافظ کا ایک دستہ بڑے دروازہ میں داخل ہو رہا تھا۔ اس کے قدموں کی آواز و تلواروں کی چمک استیف کو اپنے ساتھ کھینچے ہوئے اندر لے گئی۔ وہ محل کے پہلے برآمدہ میں داخل ہوا۔ جہاں شاہی دربان مسلحہ کھڑے تھے۔ ایک قوی الحبثہ حبشی بارگاہ کے سرا پردے کے پاس ایک برہنہ تیغہ ہاتھ میں لیے کھڑا ہوا تھا۔ استیف نے آگے بڑھ کر سرخ گلاب اس کے سامنے پیش کیا۔۔۔ اس کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کہے کیا؟

دربان مسکرایا، ’’بیوقوف آدمی! مجھے کوئی حسین چھوکری سمجھا ہے تونے؟ گدھا!‘‘

استیف کے بدن میں ان تحقیر آمیز الفاظ نے آگ لگا دی۔ وہ بے اختیار ہوگیا۔ اسے خبر نہتھی کہ کس طرح اس نے دربان کے سیاہ تاب گال پر ایک چانٹامارا!۔۔۔ سارے برآمدہ میں شور مچ گیا۔ محافظ دستہ کے سپاہیوں نے اپنی تلواروں کے قبضوں سےمار مار کر استیف کو فرش پر گرا دیا۔ چند منٹ میں اس کا خاتمہ ہو جاتا مگر ہنگامہ کی آواز سن کر دربانوں کا داروغہ کمرہ سے نکل آیا۔ اس کو دیکھ کر سپاہیوں نے ہاتھ روکا۔

’’ارے تو کون ہے، دہقانی؟‘‘ داروغہ نے کہا۔

استیف جھنجھلایا ہوا اٹھا۔ اس کاگلاب زمین پر گر گیا تھا۔ اس کی چند پتیاں منتشر ہوچکی تھیں۔ جھک کر اس نے گلاب کو زمین سے اٹھالیا۔ اور اٹھاکر داروغہ کےسامنے پیش کردیا۔

’’ہاں!‘‘ سرخ گلاب کو دیکھ کر داروغہ مسکرایا۔ ’’بے وقوف آدمی! اس پھول کو لے کر یہاں کیوں آئے؟‘‘پھر اس نے مجمع کی طرف دیکھ کر سپاہیوں کو جھڑکا،

’’جاؤ اپنا کام کرو، کیا کچھ تماشہ بنایا ہے؟‘‘ جب سپاہی ہٹ گئے تو اس نے استیف کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر دبی زبان سے کہا،

’’یہ حماقت کی تم نے، اس پھول کو لے کر یہاں گھس پڑے۔ تمہیں جہاں یہ پھول لے کرجانا چاہیے یہ وہ جگہ نہیں۔‘‘

یہ کہہ کر وہ استیف کواپنے ساتھ ایک دوسرے دروازہ پر لے گیا۔ اور وہاں کے چوبدار کو آواز دے کر کہا،

’’لو یہ ایک بے وقوف پھول والا آیا ہے۔ اس کو اندر پہنچاؤ۔ یہ آدمی ہماری طرف کا نہیں ہے۔ تمہاری طرف کا ہے!‘‘

ملکہ کے چوبدار نے پھول پر نظر کی، اور استیف کو پیچھے آنے کا اشارہ کرکے ملکہ کے محل کے دروازے میں داخل ہوگیا۔

آراستہ اور خوبصورت برآمدوں سے گزر کر۔۔۔ آگے آگے چوبدار اور اس کے پیچھے استیف۔۔۔ دونوں ایک پرفضا باغیچہ میں داخل ہوئے،جس کے وسط میں ایک فوارہ جاری تھا۔ اس کے پانی کی سطح پر سینکڑوں رنگین پھول تیر رہے تھے۔ باغیچہ سے گزر کر ملکہ عالم کی خاص محل سرا تھی۔ محل سرا کے برآمدوں میں نوعمر اورخوبصورت لڑکے، زرق برق لباس پہنے ہوئے، حسین مامائیں اور باندیاں،خوفناک شکل کے خواجہ سرا اور حبشی غلام جن کے سروں پر زرد پگڑیاں بندھی ہوئی تھیں۔ کچھ بیٹھے کچھ لیٹے کچھ ٹہل رہے تھے۔ کچھ چھوکریاں قدم بڑھائے ادھر ادھر جارہی تھیں۔ استیف کے دہقانی وضع اور پھر اس کے ہاتھ میں سرخ گلاب کے پھول کر جس نے دیکھا، وہ منھ پھیر کر مسکرا دیا۔ شاہی خواصیں اپنے ہاتھ کے پنکھوں کی آڑ میں ایک دوسرے کو اشارے کر رہی تھیں اور کم عمر لڑکے منہ پر ہاتھ رکھ رکھ کر اپنی ہنسی کو روک رہے تھے۔

استیف کو اپنے گرد و پیش ان حرکات کی کچھ خبر نہ تھی۔ وہ چوبدار کے پیچھے پیچھے پردہ اٹھا کر شاہی محل سرا کے خاص کمروں میں داخل ہوا۔

ایک مزین کمرہ کے ایک گوشے،میں، ریشم کے قرمزی پردوں کی آڑ میں، بڑے بڑے گدوں اور تکیوں پر ملکہ تھوڈورا آرام فرما رہی تھی۔ ایک رنگین فوارہ کمرے کے وسط میں جاری تھا۔ چھوٹی میزوں پر تازہ پھولوں کی ڈھیریاں رکھی ہوئی تھیں جن کی مہک سے تمام کمرہ معطر تھا۔

کچھ ایسی ہلکی روشنی، ریشمیں پردوں سے چھن چھن کر کمرہ میں آرہی تھی جیسی کہ رات کے ختم ہوتے اور دن کے شروع ہونےکے وقت ہوتی ہے۔۔۔ وہ سب جنت کا ایک تخیل تھا۔ جس کو استیف نےآج اپنی عمر میں پہلی دفعہ اپنی آنکھوں سی دیکھا۔۔۔ ریشم کے پردوں کی آڑ سے اس دھندلی روشنی میں ملکہ نے اشارہ کیا۔ کمرہ کے سکون کامل میں، رومی قالینوں پر استیف کے قدموں کی آواز گم تھی۔ وہ ادب کے ساتھ آگے بڑھا اور اس نے ملکہ عالم تھوڈورا کا آغوش محبت اپنے لیے کھلا ہوا پایا!

’’تمہارے جانے کا وقت آگیا۔‘‘ نظریں نیچی کئے ہوئے ملکہ نے فرمایا۔

استیف کے جسم میں ایک عجیب لرزش، ایک عجیب سنسناہٹ تھی۔ جو آج سے پہلے اس نے کبھی محسوس نہ کی تھی۔

وہ ابھی تک ملکہ کے آغوش کی مستیوں سے مخمور تھا۔ اس کا دل دھڑک رہاتھا۔ جب اس نے کہا،

’’کیا پھر کبھی ملاقات نصیب ہوگی؟‘‘

ملکہ مسکرائی! استیف اپنے سوال کے جواب کا منتظر تھا کہ یکایک وہی خواجہ سرا جو اس کو اندر لایا تھا، کمرہ میں داخل ہوا۔ استیف چونکا۔ اس کو محبت کی خلوت میں خواجہ سرا کی یہ دراندازی ناگوار گزری۔ گویا یہ سیاہ فام حبشی اسکی اس نئی محبت کے راز کو فاش کیے دیتا ہے۔ لیکن ملکہ سے اپنے سوال کا جواب نہ پاکر وہ یک گونہ مایوس ہوا۔ اور سرجھکائے دروازے کی طرف ہٹنے لگا۔ ملکہ کے ہونٹ ہلتے دیکھ کر وہ پھر ذرا رکا۔

’’استیف کل پھر آؤ۔‘‘

ملکہ کے شیریں لبوں سے یہ شیریں پیام الفت کس قدر روح پروا اور دل نواز معلوم ہوا۔

اس دھندلی روشنی میں ملکہ۔۔۔ نہ جانےکس طرح۔۔۔ اس کمرے سے جا چکی تھی۔ استیف نے اس کو جاتے نہ دیکھا۔ لیکن اس کی جگہ خالی تھی اور استیف ’’وعدہ فراد‘‘ کی مسرتوں سے جھومتا ہوا دروازے کی طرف بڑھا۔

اس کے اور دروازے کے درمیان چند قدم باقی تھے کہ ایک حبشی غلام کی نوک دارچھری اس کی پشت پر چمکی اور چشم و زن میں اس کی پشت کی طرف سے سینہ کے پار ہوگئی۔ وہ صرف ایک ہچکی لے کردروازے کے سامنے فرش پر اوندھا گر گیا۔

غلام نےچند لمحے اپنی چھری کو اس کے گرم جسم میں آرام لینے دیا۔ اس کے بعد اس کے خون آلود پھل کو باہر کھینچ لیا۔ استیف کے سر کے لمبے بالوں سے اس حبشی نے اپنی چھری کاخون صاف کیا۔ پھر لاش کی ٹانگ پکڑ کر اس کو کھینچتا ہوا کمرہ کے باہر لے گیا۔

اس کمرے کے فرش پر، جہاں استیف نے ایک لمحہ کے لیے تھوڈورا کے آغوش میں محبت کی ایک بازی لگائی تھی۔ سرخ گلاب کی پتیاں بکھری ہوئی رہ گئیں اور ان پتیوں میں سے ایک پر استیف کی جوانی کے گرم خون کا صرف ایک قطرہ جما ہوا رہ گیا۔

اسی شام کو جب چند ملاح اپنی کشتیاں ساحل کی طرف لا رہے تھے۔ شاہی محل کے چور دروازے سے باسفورس کے پانی میں ایک سربند تھیلا، جو خون آلود بھی تھا، پھینکا گیا۔

ملاحوں نے دیکھا اور اپنے پتوار تیزی سے چلانے لگے۔ ان کے لیے اس قسم کے تھیلے کوئی نئی چیز نہ تھے۔ ہر روز صبح شام وہ دیکھا کرتے تھے کہ شاہی محل سےباسفورس کی بھوکی مچھلیوں کی یہ مخصوص غذا پانی پر پھینکی جاتی ہے۔ ان کو یہ بھی معلوم تھا، اور بائی زنطہ میں کس کو معلوم نہ تھا کہ رحم دل ملکہ عالم ’’حسن کی دعوت‘‘ کے بعد باسفورس کی مچھلیوں کے لیے اپنے حسن کے دسترخوان سے تازہ غذائیں پہنچایا کرتی ہیں!


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.