ثابت رہا فلک مرے نالوں کے سامنے

ثابت رہا فلک مرے نالوں کے سامنے
by منیرؔ شکوہ آبادی
316929ثابت رہا فلک مرے نالوں کے سامنےمنیرؔ شکوہ آبادی

ثابت رہا فلک مرے نالوں کے سامنے
ٹھہری سپر حباب کے بھالوں کے سامنے

موسیٰ ہیں غش میں گیسوؤں والوں کے سامنے
گل ہے چراغ طور بھی کالوں کے سامنے

پھولوں کا رنگ زرد ہے گالوں کے سامنے
سنبل میں بل نہیں ترے بالوں کے سامنے

رکھوائے جھاڑ اس نے نہالوں کے سامنے
قلمیں لگیں بلور کی ڈالوں کے سامنے

جاتا ہوں جب خزاں میں نہالوں کے سامنے
آنکھوں سے نہریں بہتی ہیں تھالوں کے سامنے

پھولے شفق تو زرد ہو گالوں کے سامنے
پانی بھرے گھٹا ترے بالوں کے سامنے

تارے ہوئے غروب خط و خال دیکھ کر
گوروں کے پاؤں اٹھ گئے گالوں کے سامنے

آنکھوں میں پھرتے ہیں نہیں آتے ہیں روبرو
پردے پڑے ہیں دیکھنے والوں کے سامنے

دیکھا ہے عاشقوں نے برہمن کی آنکھ سے
ہر بت خدا ہے چاہنے والوں کے سامنے

چھٹ جائیں گے اسیر چھپا زلف خم نجم
کٹتی ہیں بیڑیاں ترے بالوں کے سامنے

بیتاب دست شوق ہیں جوبن کے روبرو
بوسہ میں جاں بلب ترے گالوں کے سامنے

افراط مے سے مجھ کو یہ جوش سرور ہے
بجواؤں جل ترنگ میں پیالوں کے سامنے

جلد بدن ہے تختۂ مشق سپاہ غم
رہتی ہے یہ کتاب رسالوں کے سامنے

آنکھیں تمہاری دیکھ کے کچھ سوجھتا نہیں
بھولا ہوں چوکڑی میں غزالوں کے سامنے

دروازوں پر بتوں کے لگایا کئے الاؤ
ہولی جلائی ہم نے شوالوں کے سامنے

زلفوں میں دیکھتا ہوں ترا چہرۂ صبیح
لبریز جام شیر ہے کالوں کے سامنے

تیرے گدا سے بند ہے عالم کا ناطقہ
آتے نہیں جواب سوالوں کے سامنے

کھینچے بتوں نے اپنی طرف زاہدوں کے دل
قبلہ نما پھرے ہیں شوالوں کے سامنے

چوری سے بوسۂ کف پا لیں جو اے پری
ہونٹ اپنے چوم لوں ترے گالوں کے سامنے

پہنچا فلک کو فقر کا رتبہ حضور عیش
کمبل چڑھے ہیں چرخ دو شالوں کے سامنے

اہل کتاب ہیں صف مژگاں کے روبرو
کاغذ کے دستے آئے رسالوں کے سامنے

فیاض سائلوں سے نہیں کرتے سرکشی
شیشوں کے سر جھکے ہیں پیالوں کے سامنے

دست جفا اٹھائیں گے کیا جسم زار پر
کانٹا ہوں تیغ ناز کے چھالوں کے سامنے

شیشے کو حسن گرم نے پارہ بنا دیا
آئینے اڑ گئے ترے گالوں کے سامنے

تیغ نگہ کو موتیوں کی ڈاب چاہئے
آئینہ رکھ کے دیکھیے چھالوں کے سامنے

جلتے رہے بتوں کی حضوری میں شمع رو
پریاں ستی ہوئی ہیں شوالوں کے سامنے

ہم چشموں پر لگائی ہیں اس بت نے گولیاں
توڑے ہوئے ہیں شیر غزالوں کے سامنے

جادہ بنت بنا مری وحشت کے فیض سے
گوٹے کے گو کہر ہوئے چھالوں کے سامنے

میرے ہنر کا کوئی نہیں قدرداں منیرؔ
شرمندہ ہوں میں اپنے کمالوں کے سامنے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.