جاؤ بھی جگر کیا ہے جو بیداد کرو گے
جاؤ بھی جگر کیا ہے جو بیداد کرو گے
نالے مرے سن لو گے تو فریاد کرو گے
تم بعد مرے غیر کا دل شاد کرو گے
کیوں یاد مری آئے گی کیا یاد کرو گے
پاؤ گے غلام ایک وفادار نہ ایسا
پچھتاؤ گے ہم کو اگر آزاد کرو گے
غصے کا سبب دیر سے میں پوچھ رہا ہوں
دشنام ہی دو گے کہ کچھ ارشاد کرو گے
پچھتاؤ نہ دل دے کے حفیظؔ ان کو تو کہنا
وہ زک یہ حسیں دیں گے کہ تم یاد کرو گے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |