جاتا ہے مرے گھر سے دل دار خدا حافظ

جاتا ہے مرے گھر سے دل دار خدا حافظ
by میر محمدی بیدار

جاتا ہے مرے گھر سے دل دار خدا حافظ
ہے زندگی اب مشکل بے یار خدا حافظ

وہ مست شراب حسن غصے سے نہایت ہی
کھینچے ہوئے آتا ہے تلوار خدا حافظ

مجھ پاس طبیب آ کے کہنے لگا اے یار
بے طرح کا ہے اس کو آزار خدا حافظ

حاصل نہیں درماں کا وہ ہے یہ مرض جس سے
جاں بر نہ ہوا کوئی بیمار خدا حافظ

بے طرح کچھ ایدھر کو وہ مست شراب حسن
کھینچے ہوئے آتا ہے تلوار خدا حافظ

اے شیخ تو اس بت کے کوچے میں تو جاتا ہے
ہو جائے نہ یہ سبحہ زنار خدا حافظ

ڈرتا ہوں کہ دل ہر دم ملتا ہے نہ ہو جاوے
اس چشم ستم گر کا بیمار خدا حافظ

یوں مہر سے فرمایا اس ماہ نے وقت صبح
ہم جانے ہیں اب تیرا بیدارؔ خدا حافظ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse