جام لا جام کہ آلام سے جی ڈرتا ہے

جام لا جام کہ آلام سے جی ڈرتا ہے
by اختر انصاری اکبرآبادی

جام لا جام کہ آلام سے جی ڈرتا ہے
اثر گردش ایام سے جی ڈرتا ہے

لب پہ اب عارض و گیسو کے فسانے کیا ہوں
فتنہ ہائے سحر و شام سے جی ڈرتا ہے

تجھ کو میں ڈھونڈھتا پھرتا ہوں در و بام سے دور
اب تجلئ در و بام سے جی ڈرتا ہے

گل کھلائے نہ کہیں فتنۂ دوراں کچھ اور
آج کل دور مے و جام سے جی ڈرتا ہے

نگہ مست کے قربان مری سمت نہ دیکھ
موجۂ بادۂ گلفام سے جی ڈرتا ہے

چھوڑ کر راہ میں بت خانے گزر جاتا ہوں
ہوش میں جلوۂ اصنام سے جی ڈرتا ہے

رات کی ظلمتیں بڑھتی ہی چلی جاتی ہیں
اخترؔ اپنا تو سر شام سے جی ڈرتا ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse