جانوں میں نہ جبکہ نام اس کا

جانوں میں نہ جبکہ نام اس کا
by میر محمدی بیدار

جانوں میں نہ جبکہ نام اس کا
پوچھوں کیا کہہ مقام اس کا

ہے دل کوں تپش کچھ اور ہی آج
لاتا ہے کوئی پیام اس کا

نامہ کہ تو کیا جگہ کہ قاصد
لایا ہی نہ یاں سلام اس کا

مت لیجیو دل تو چاہ کا نام
قتل عاشق ہے کام اس کا

ہو جائے گا پائمال بیدارؔ
دیکھے گا اگر خرام اس کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse