جانے لگے ہیں اب دم سرد آسماں تلک
جانے لگے ہیں اب دم سرد آسماں تلک
ٹھنڈی سڑک بنی ہے یہاں سے وہاں تلک
جلتے ہیں غم سے جان و دل و سینہ و جگر
چاروں طرف ہے آگ بجھاؤں کہاں تلک
بیمار ہو گیا ہوں میں قحط شراب سے
للہ لے چلو مجھے پیر مغاں تلک
مسجد سے دور ہے یہ دکاں مے فروش کی
آتی نہیں ہے کان میں بانگ اذاں تلک
نکلا جو دم تو راحت و آرام ہے اسیرؔ
آوارگی ہے جسم کی روح رواں تلک
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |