جانے والے نہ ہم اس کوچے میں آنے والے

جانے والے نہ ہم اس کوچے میں آنے والے
by ریاض خیرآبادی

جانے والے نہ ہم اس کوچے میں آنے والے
اچھے آئے ہمیں دیوانہ بنانے والے

تو سلامت رہے دل میں اتر آنے والے
ترے صدقے مری آنکھوں میں سمانے والے

ایک ہم لاکھ حسینوں سے عوض لینے کو
ایک دل لاکھ حسیں دل کے ستانے والے

جب ملے خضر ملے ہم سے اسی وضع کے ساتھ
ہائے کیا لوگ ہیں یہ اگلے زمانے والے

تیر مژگاں میں چھدے کب جگر و دل دیکھے
تیری ناوک تو ہیں بے پر کی اڑانے والے

بن گیا میرے لئے حشر کا دن وصل کی رات
مل گئے آج مجھے میرے ستانے والے

نگہ ناز ادھر ہے نگہ شوق ادھر
ہم تو بجلی کو ہیں بجلی سے لڑانے والے

باندھ دے گی یہ حنا ہاتھ جو رحم آئے گا
کیا بجھائیں گے لگی آگ بجھانے والے

بار عصیاں سے مرے ساتھ پسے اور بھی چار
دب گئے ہائے جنازے کے اٹھانے والے

ساتھ صحبت کے وہ سب حرف و حکایات کئے
سننے والے ہیں نہ افسانے سنانے والے

کم سنی پر ترس آیا نہ شب وصل ریاضؔ
اف رے بے درد حسینوں کے ستانے والے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse