جان آنکھوں میں رہی جی سے گزرنے نہ دیا
جان آنکھوں میں رہی جی سے گزرنے نہ دیا
اچھی دیدار کی حسرت تھی کہ مرنے نہ دیا
کیا قیامت ہے ستم گار بھری محفل میں
دل چرا کر تری دزدیدہ نظر نے نہ دیا
مدتوں کش مکش یاس و تمنا میں رہے
غم نے جینے نہ دیا شوق نے مرنے نہ دیا
ناخدا نے مجھے دلدل میں پھنسائے رکھا
ڈوب مرنے نہ دیا پار اترنے نہ دیا
کوئی تو بات ہے جو غیر کے آگے اس نے
شکوہ کیسا کہ مجھے شکر بھی کرنے نہ دیا
خاک آرام کی خواہش ہو وطن سے باہر
جب ہمیں چین تپشؔ اپنے ہی گھر نے نہ دیا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |