جان جاتی ہے مری ان کو خبر کچھ بھی نہیں

جان جاتی ہے مری ان کو خبر کچھ بھی نہیں (1870)
by منشی شیو پرشاد وہبی
324096جان جاتی ہے مری ان کو خبر کچھ بھی نہیں1870منشی شیو پرشاد وہبی

جان جاتی ہے مری ان کو خبر کچھ بھی نہیں
تجھ میں او نالۂ جاں سوز اثر کچھ بھی نہیں

تیغ ابرو وہ دکھا کر یہی فرماتے ہیں
اس کے آگے جو نہ ہو سینہ سپر کچھ بھی نہیں

حالت نزع میں تم آئے ہو کیوں کر دیکھوں
نور آنکھوں میں اب اے نور نظر کچھ بھی نہیں

گو خطائیں نہیں ہیں کچھ مری پر سب کچھ ہیں
ظلم و جور آپ کے سب کچھ ہیں مگر کچھ بھی نہیں

تپ فرقت نے یہاں اپنا کیا کام تمام
بے خبر آج تلک تجھ کو خبر کچھ بھی نہیں

رات دن اس رخ و گیسو کا تصور ہے مجھے
مشغلہ اس کے سوا شام و سحر کچھ بھی نہیں

عارضی حسن پہ نازاں ہیں عبث یہ مہوش
رات بھر نور کا عالم ہے سحر کچھ بھی نہیں

منزل گور میں کیا دیکھیے ہم پر گزرے
غم عصیاں کے سوا زاد سفر کچھ بھی نہیں

کیوں یم اشک میں تو نے نہ ڈبویا مجھ کو
آبرو اب تری او دیدۂ تر کچھ بھی نہیں

ہے بجا ہیچ جو سمجھے ہیں اسے سب شاعر
غور سے دیکھتے ہیں تو وہ کمر کچھ بھی نہیں

عالم خواب میں کس طرح جہاں کو سمجھوں
کیوں یہ سب کچھ نظر آتا ہے اگر کچھ بھی نہیں

عاشقی کر کے نہ پھل پاؤ گے ہرگز وہبیؔ
نخل الفت میں بجز داغ ثمر کچھ بھی نہیں


Public domain
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.

PD-US //wikisource.org/wiki/%D8%AC%D8%A7%D9%86_%D8%AC%D8%A7%D8%AA%DB%8C_%DB%81%DB%92_%D9%85%D8%B1%DB%8C_%D8%A7%D9%86_%DA%A9%D9%88_%D8%AE%D8%A8%D8%B1_%DA%A9%DA%86%DA%BE_%D8%A8%DA%BE%DB%8C_%D9%86%DB%81%DB%8C%DA%BA