جان نکلے گی مری جان بڑی مشکل سے
جان نکلے گی مری جان بڑی مشکل سے
ہوگی مشکل مری آسان بڑی مشکل سے
وہ مرے گھر رہے مہمان بڑی مشکل سے
رات نکلے مرے ارمان بڑی مشکل سے
آنکھیں تلووں سے ملیں لے کے قدم آنکھوں پر
راہ پر آئے نگہبان بڑی مشکل سے
تھا بہت ان کو گلوری کا اٹھانا مشکل
دست نازک سے دیا پان بڑی مشکل سے
بڑھ کے درباں نے لیا آج بھی دامن میرا
کل چھڑایا تھا گریبان بڑی مشکل سے
صحبت بد سے بچانے کا بتایا سب حال
آج مانے مرے احسان بڑی مشکل سے
ظلم کو لطف سے تعبیر کریں گے دم حشر
جور سے ہوں گے پشیمان بڑی مشکل سے
کوئی کافر ہو جو کل جائے سوئے دیر بتاں
کہ بچا آج ہی ایمان بڑی مشکل سے
نہ رہے میں نے کلیجے میں جو رکھنا چاہا
دل میں ٹھہرے ترے پیکان بڑی مشکل سے
دور ابھی منزل مقصود ہے کالے کوسوں
کچھ ہوئے قطع بیابان بڑی مشکل سے
مان لیتے ہیں وہ مشکل سے بھی مشکل کوئی بات
کبھی آساں سے بھی آسان بڑی مشکل سے
مے بہت رک کے مرے حلق سے اترے دم نزع
ابھی مشکل ہوئی آسان بڑی مشکل سے
بے شب وصل یہ انداز نکلتے ہی نہیں
زلف ہوتی ہے پریشان بڑی مشکل سے
دھار تلوار کی تھی جادۂ باریک نہ تھا
ہے ہوا حشر کا میدان بڑی مشکل سے
رہتے ہیں ایسے ہی انسان فرشتے بن کر
آدمی بنتے ہیں انسان بڑی مشکل سے
دل بسمل میں کچھ اس طرح ہوئے تھے پیوست
ٹوٹ کر نکلے ہیں پیکان بڑی مشکل سے
یہی انداز یہی وضع جو رکھوگے ریاضؔ
لوگ سمجھیں گے مسلمان بڑی مشکل سے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |