جان ہی جائے تو جائے درد دل

جان ہی جائے تو جائے درد دل
by حفیظ جونپوری

جان ہی جائے تو جائے درد دل
اک یہی ہے اب دوائے درد دل

اب تڑپنے میں مزا ملتا نہیں
ہو چلی جاں آشنائے درد دل

امتحان ضبط ہے منظور آج
جس قدر چاہے ستائے درد دل

بھاگتی ہے دور جس سے موت بھی
وہ بلا ہے یہ بلائے درد دل

رحم کب آیا کسی بے درد کو
ہو چکی جب انتہائے درد دل

کھا کے کچھ سو رہتے ہیں حرماں نصیب
ایک یہ بھی ہے دوائے درد دل

ہم مریضوں کا نہیں ممکن علاج
لا دوا ہیں مبتلائے درد دل

رہتی ہے سینے ہی پر تصویر دوست
ہے یہ تعویذ اک برائے درد دل

روتے روتے بندھ گئی ہچکی حفیظؔ
جب کہا کچھ ماجرائے درد دل

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse