جاں بھی بجاں ہے ہجر میں اور دل فگار بھی

جاں بھی بجاں ہے ہجر میں اور دل فگار بھی
by نظیر اکبر آبادی

جاں بھی بجاں ہے ہجر میں اور دل فگار بھی
تر ہے مژہ بھی اشک سے جیب بھی اور کنار بھی

طرفہ فسوں سرشت ہے چشم کرشمہ سنج یار
لیتی ہے اک نگاہ میں صبر بھی اور قرار بھی

کوچے میں اس کے بیٹھنا حسن کو اس کے دیکھنا
ہم تو اسی کو سمجھے ہیں باغ بھی اور بہار بھی

دیکھیے کیا ہو بے طرح دل کی لگے ہیں گھات میں
غمزۂ پر فریب بھی عشوۂ سحر کار بھی

زلف کو بھی ہے دم بہ دم عزم کمند افگنی
دام لیے ہے مستعد طرۂ تابدار بھی

بیٹھے بتوں کی بزم میں جن کی ہے قدر جب وہ لوگ
اپنے فریب و فن سے واں تھا یہ خراب و خوار بھی

گننے لگے وہ اپنے جب چاہنے والوں کو نظیرؔ
اٹھ کے یکایک اس گھڑی ہم نے کہا "ہیں یار بھی"

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse