جا لڑی یار سے ہماری آنکھ

جا لڑی یار سے ہماری آنکھ
by آغا اکبرآبادی

جا لڑی یار سے ہماری آنکھ
دیکھو کر بیٹھی فوجداری آنکھ

شوخیاں بھول جائے آہوئے چیں
دیکھ پائے اگر تمہاری آنکھ

لاکھ انکار مے کشی سے کرو
کہیں چھپتی بھی ہے خماری آنکھ

ہووے گا رنج یا خوشی ہوگی
کیوں پھڑکنے لگی ہماری آنکھ

جانب در نگاہ حسرت ہے
کس کی کرتی ہے انتظاری آنکھ

کر کے اقرار ہو گیا منکر
سامنے آ کے کس نے ماری آنکھ

مرغ دل پر نگاہ ہے ان کی
ایسی دیکھی نہیں شکاری آنکھ

ہے ستم نوک جھونک چتون میں
لڑ رہی ہے چھری کٹاری آنکھ

دل جگر دونوں ہو گئے مجروح
بن گئی ہے چھری کٹاری آنکھ

کوئی دم میں ابھارتے ہیں اسے
اس نے دیکھا کہ ہم نے ماری آنکھ

آغاؔ صاحب تمہارے دلبر کی
کیا رسیلی ہے کیا ہے پیاری آنکھ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse