جبین شوق کو کچھ اور بھی اذن سعادت دے
جبین شوق کو کچھ اور بھی اذن سعادت دے
کہ ذوق زندگی محدود سنگ آستاں تک ہے
نوید رستگاری پر عبث دل شاد ہوتا ہے
ابھی صد دام اے بلبل قفس سے آشیاں تک ہے
یہ احساس تعلق مجھ کو مٹنے بھی نہیں دیتا
کہ تیری داستاں کا ربط میری داستاں تک ہے
ترانہ چھیڑ وہ مطرب کہ روح عشق چونک اٹھے
خروش نالۂ غم کیا جو سوز جسم و جاں تک ہے
سراپا آرزو بن کر کمال مدعا ہو جا
وہ ننگ عشق ہے جو آرزو آہ و فغاں تک ہے
زمانہ چاہیے تکمیل ذوق لذت غم کو
ابھی دنیائے دل محدود ذکر این و آں تک ہے
بیابان محبت کی نوازش پوچھنا کیا ہے
امید و بیم کی حالت فقط سود و زیاں تک ہے
کہاں سے لائے گی دنیا ہماری ہمتیں آسیؔ
محبت میں قدم اپنا فقط کون و مکاں تک ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |