جب تن نہ رہا میرا ہوں واصل جانانہ

جب تن نہ رہا میرا ہوں واصل جانانہ
by ولی عزلت
299441جب تن نہ رہا میرا ہوں واصل جانانہولی عزلت

جب تن نہ رہا میرا ہوں واصل جانانہ
دیوار کے گرنے سے ہم سایا ہو ہم خانہ

آئینے میں دیکھ آ کر منہ اپنا اے جانانہ
تا قدر مری جانے کاش اپنا ہو دیوانہ

اس زلف میں کئی دن سے بیتابیٔ دل گم ہے
زنجیر جھنکتی نئیں کیا مر چکا دیوانہ

بجلی مرے نالے کی جوں چمکے تو موند آنکھیں
اے آشنا آگے تو اتنا نہ تھا بیگانہ

دل شرم محبت سے تر ہے تو نہ پھیر آنکھیں
کیوں کر پسے چکی میں بھیگا ہوا ہے دانہ

عزلتؔ گیا آنکھوں سے اس واسطے جی اس کا
ہے شمع کی چشم تر تربت پروانہ


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.