جب تک غم جہاں کے حوالے ہوئے نہیں
جب تک غم جہاں کے حوالے ہوئے نہیں
ہم زندگی کے جاننے والے ہوئے نہیں
کہتا ہے آفتاب ذرا دیکھنا کہ ہم
ڈوبے تھے گہری رات میں کالے ہوئے نہیں
چلتے ہو سینہ تان کے دھرتی پہ کس لیے
تم آسماں تو سر پہ سنبھالے ہوئے نہیں
انمول وہ گہر ہیں جہاں کی نگاہ میں
دریا کی جو تہوں سے نکالے ہوئے نہیں
طے کی ہے ہم نے صورت مہتاب راہ شب
طول سفر سے پاؤں میں چھالے ہوئے نہیں
ڈس لیں تو ان کے زہر کا آسان ہے اتار
یہ سانپ آستین کے پالے ہوئے نہیں
تیشے کا کام ریشۂ گل سے لیا شکیبؔ
ہم سے پہاڑ کاٹنے والے ہوئے نہیں
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |