جب تک کہ دل نہ لاگا ان بے مروتوں سے

جب تک کہ دل نہ لاگا ان بے مروتوں سے
by میر محمدی بیدار

جب تک کہ دل نہ لاگا ان بے مروتوں سے
ایام اپنے گزرے کیا کیا فراغتوں سے

بالین پر بھی ظالم ٹک یک نظر نہ دیکھا
عاشق نے جان دی تو پر کیا ہی حسرتوں سے

مت پوچھ یہ کہ تجھ بن شب کس طرح سے گزری
کاٹی تو رات لیکن کن کن مصیبتوں سے

مضمون سوز دل کا کہتے ہی اڑنے لاگے
حرف و نقط شرر ساں یکساں کتابتوں سے

بیدارؔ سیر گلشن کیوں کر خوش آوے مجھ کو
جوں لالہ داغ ہے دل یاروں کی فرقتوں سے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse