جب سے تیری آنکھ ہم سے پھر گئی
جب سے تیری آنکھ ہم سے پھر گئی
حلقۂ غم میں طبیعت گھر گئی
فوج مژگاں میں میرے خوں کے لیے
چشم کی گردش سے کوڑی پھر گئی
محتسب کی آنکھ پر جب سے چڑھی
دخت رز شیشہ کے دل سے گر گئی
نا توانوں کے لئے طوفان کیا
قطرۂ شبنم میں جوہی تر گئی
ساقیا کوئی بلا تھا محتسب
خیریت گزری جو خم کے سر گئی
مردہ میرا دیکھ کر بولا وہ شوخ
کیوں نسیمؔ اب آنکھ تیری پھر گئی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |