جب سے عطا ہوا ہمیں خلعت حیات کا

جب سے عطا ہوا ہمیں خلعت حیات کا
by مصطفٰی خان شیفتہ

جب سے عطا ہوا ہمیں خلعت حیات کا
کچھ اور رنگ ڈھنگ ہوا کائنات کا

شیشہ اتار، شکوے کو بالائے طاق رکھ
کیا اعتبار زندگیِ بے ثبات کا

لڑتے ہو جب رقیب سے کرتے ہو مجھ سے صلح
مشتاق یاں نہیں کوئی اس التفات کا

گر تیرے تشنہ کام کو دے خضر مرتے دم
پانی ہو خشک چشمۂ آبِ حیات کا

یاں خار و خس کو بے ادبی سے نہ دیکھنا
ہاں عالمِ شہود ہے آئینہ ذات کا

کہتے ہیں جان، جانتے ہیں بے وفا مجھے
کیا اعتبار ہے انہیں دشمن کی بات کا

واعظ جنوں زدوں سے نہیں باز پرسِ حشر
بس آپ فکر کیجئے اپنی نجات کا

جوشِ سرشکِ خوں کے سبب سے دمِ رقم
نامہ نہیں رہا یہ ورق ہے برات کا

اے مرگ آ ، کہ میری بھی رہ جائے آبرو
رکھا ہے اس نے سوگ عدو کی وفات کا

ایسے کے آگے شیفتہ کیا چل سکے جہاں
احسان ایک عمر رہے، ایک رات کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse