جب سے ہوا ہے عشق ترے اسم ذات کا
جب سے ہوا ہے عشق ترے اسم ذات کا
آنکھوں میں پھر رہا ہے مرقع نجات کا
مالک ہی کے سخن میں تلون جو پائیے
کہئے یقین لائیے پھر کس کی بات کا
دفتر ہماری عمر کا دیکھو گے جب کبھی
فوراً اسے کرو گے مرقع نجات کا
الفت میں مر مٹے ہیں تو پوچھے ہی جائیں گے
اک روز لطف اٹھائیں گے اس واردات کا
سرخی کی خط شوق میں حاجت جہاں ہوئی
خون جگر میں نوک ڈبویا دوات کا
موجد جو نور کا ہے وہ میرا چراغ ہے
پروانہ ہوں میں انجمن کائنات کا
اے شمع بزم یار وہ پروانہ کون تھا
لو میں تری یہ داغ ہے جس کی وفات کا
مجھ سے تو لن ترانیاں اس نے کبھی نہ کیں
موسی جواب دے نہ سکے جس کی بات کا
اس بے خودی کا دیں گے خدا کو وہ کیا جواب
دم بھرتے ہیں جو چند نفس کے حباب کا
قدسی ہوے مطیع وہ طاعت بشر نے کی
کل اختیار حق نے دیا کائنات کا
ایسا عتاب نامہ تو دیکھا سنا نہیں
آیا ہے کس کے واسطے سورہ برات کا
ذی روح مجھ کو تو نے کیا مشت خاک سے
بندہ رہوں گا میں ترے اس التفات کا
ناچیز ہوں مگر میں ہوں ان کا فسانہ گو
قرآن حمد نامہ ہے جن کی صفات کا
رویا ہے میرا دیدۂ تر کس شہید کو
مشہور ہو گیا ہے جو چشمہ فرات کا
آئے تو آئے عالم ارواح سے وہاں
دم بھر جہاں نہیں ہے بھروسا ثبات کا
دھوم اس کے حسن کی ہے دو عالم میں اے شرفؔ
خورشید روز کا ہے وہ مہتاب رات کا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |