جب قطع کی مسافتِ شب آفتاب نے

جب قطع کی مسافتِ شب آفتاب نے
by میر انیس
294942جب قطع کی مسافتِ شب آفتاب نےمیر انیس

جب قطع کی مسافتِ شب آفتاب نے
جلوہ کیاسحر کے رخِ بے حجاب نے
دیکھا سوئے فلک شہ گردوں رکاب نے
مڑ کر صدا رفیقوں کو دی اس جناب نے
آخر ہے رات حمد و ثنائے خدا کرو
اٹھو فریضۂ سحریٰ کو ادا کرو

ہاں غازیو یہ دن ہے جدال و قتال کا
یاں خوں بہے گا آج محمد کی آل کا
پرہ خوشی سے سرخ ہے زہرا کے لال کا
گذری شبِ فراق دن آیا وصال کا
ہم وہ ہیں غم کریں گے ملک جن کے واسطے
راتیں تڑپ کے کاٹی ہیں اس دن کے واسطے

یہ صبح ہے وہ صبح مبارک ہے جس کی شام
یاں سے ہوا جو کوچ تو ہے خلد میں مقام
کوثر پہ آبرو سے پہونچ جائیں تشنہ کام
لکھے خدا نماز گزاروں ممیں سب کے نام
سب ہیں وحیدِ عصر یہ غل چار سو اٹھے
دنیا سے جو شہید اٹھے سرخرو اٹھے

یہ سن کے بستروں سے اٹھے وہ خدا شناس
اک اک نے زیبِ جسم کیا فاخرہ لباس
شانے محاسنوں میں کیے سب نے بے ہراس
باندھے عمامہ آئے امامِ زماں کے پاس
رنگیں عبائین دوش پہ کمریں کسے ہوے
مشک و زبا دو عرت میں کپڑے بسے ہوئے

سوکھے بسوں پہ حمدِ الٰہی رخوں پہ نور
خوف و ہراس رنج و کدورت دلوں سے دور
فیاض حق شناس اولو العزم ذی شعور
خوش فکر و بزلہ سنج و ہنر پرور و غیور
کانوں کو حسنِ صوت سے حظ برملا ملے
باتوں میں وہ نمک کہ دلوں کو مزا ملے

ساونت برد بار فلک مرتبت دلیر
عالی منش سبا میں سلیماں وغا میں شہ
گرداں دہر ان کی زبردستیوں سے زیر
فاقے سے تین دن کے مگر زندگی سے سیہ
دنیا کو ہیچ پوچ سراپا سمجھتے ہیں
دریا دلی سے بحر کو قطرا سمجھتے ہیں

تقریر میں وہ رمز کنایہ کہ لاجواب
نکتہ بھی منہ سے گر کوئی نکلا تو انتخاب
گویا دہن کتابِ بلاغت کا ایک باب
سوکھی زبانیں شہد فصاحت سے کامیاب
لہجوں پہ شاعران عبر تھے مرے ہوئے
پستے بسوں کے وہ کہ نمک سے بھرے ہوئے

لب پر ہنسی گلوں سے زیادہ شگفتہ رو
پیدا تنوں س پیرہن یوسفی کی بو
غلماں کے دل میں جن کی غلامی کی آرزو
پرہیز گار زاہدِ ابرار و نیک خو
پتھر میں ایسے لعل صدف میں گہر نہیں
روں کا قول تھا کہ ملک ہیں بشر نہیں

پانی نہ تھا وضو جو کریں وہ فلک مآب
پر تھی رخوں پہ خاکِ تمیم سے طرفہ آب
باریک ابر میں نظر آتے تھے آفتاب
ہوتے ہیں خاکسار غلامِ ابوتراب
مہتاب سے رخوں کی صفا اور ہو گئی
مٹی یس آئتوں میں جلا اور ہو گئی

خیمے سے نکلے شہ کے عزیزاں خوش خصال
جن میں کئی تھے حضرتِ خیر النسا کے لال
قاسم سا گلبدن علی اکبر سا خوش جمال
اک جا عقیل و مسلم و جعفر کے نونہال
سب کے رخوں کا نور سپہر بریں پہ تھا
اٹھارہ آفتابوں کا غنچہ زمیں پہ تھا

ٹھنڈی ہوا میں سبزۂ صحرا کی وہ لہک
شرمائے جس سے اطلسِ زنگاریِ فلک
وہ جھومنا درختوں کا پھولوں کی وہ مہک
ہر برگِ گل پہ قطرہ شبنم کی وہ جھلک
ہیرے خجل تھے گوہر یکتا نثار تھے
پتے بھی ہر شجر کے جواہر نگار تھے

قرباں صنعتِ قلم آفریدگار
تھی ہر ورق پہ صنعتِ ترصیع آشکار
عاجز ہے فکرت شعرائے ہند شعار
ان صنعتوں کو پائے کہاں عقلِ سادہ کار
عالم تھا محو قدرت رب عباد پر
مینا کیا تھا وادیِ مینو سواد پر

وہ نور اور وہ دشت سہانا وہ فضا
دراج و کیک و تیہود طاؤس کی صدا
وہ جوشِ گل وہ نالۂ مرغانِ خوش نوا
سردی جگر کو بخشی تھی صبح کی ہوا
پھولوں سے سبز سبز شجر سرخ پوش تھے
تھا لے بھی نخل کے سبدِ گل فروش تھے

وہ دشت وہ نسیم کے جھونکے وہ سبزہ زار
پھولوں پہ جابجا وہ گہرہائے آبدار
اٹھتا وہ جھوم جوھم کے شاخوں کا باربار
بالائے نخل ایک جو بلبل تو گل ہزار
خواہاں تھے زہرا گلشن زہرا جو آب کے
شبنم نے بھر دیے تھے کٹورے گلاب کے

وہ قمریوں کا چار طرف سرو کے ہجوم
کو کو کا شور نالۂ حق سرہ کی دھوم
سبحان رہنا کی صدا تھی علی العموم
جاری تھے وہ جو ان کی عبادت کے تھے رسوم
کچھ گل فقط نہ کرتے تھے رب علا کی حمد
ہر خار کو بھی نوکِ زباں تھی خدا کی حمد

چیونٹی بھی ہاتھ اٹھا کے یہ کہتی تھی بار بار
اے دانہ کش ضعیفوں کے رازق ترے نثار
یا حی یاقدیر کی تھی ہر طرف پکار
تہلیل تھی کہیں کہیں تسبیح کردگار
طائر ہوا میں محو ہنر سبزہ زار میں
جنگل کے شیر گونج رہے تھے کچھار میں

کانٹوں میں اک طرف تھے ریاضِ نبی کے پھول
خوشبو سے جن کی خلد تھا جنگل کا عرض و طول
دنیا کی زیب و زینتِ کا شانۂ بتول
وہ باغ تھا لگا گئے تھے خود جسے رسول
ماہِ عزا کے عشرۂ اول میں کب گیا
وہ باغیوں کے ہاتھ سے جنگل میں کٹ گیا

اللہ رے خزاں کے دن اس باغ کی بہار
پھولے سماتے تھے نہ محمد کے گلِ عذار
دولہا بنے ہوئے تھے اجل تھی گلوں کا ہار
جاگے وہ ساری رات کے وہ نیند کا خمار
راہیں تمام جسم کی خوشبو سے بس گئیں
جب مسکرا کے پھولوں کلیاں بکس گئیں

وہ دشت اور خیمۂ زنگارگوں کی شان
گویا زمیں پہ نصب تھا اک تازہ آسمان
بے چوبہ سپہر بریں جس کا سائبان
بیت العیق دین کا مدینہ جہاں کی جان
اللہ کے حبیب کے پیارے اسی میں تھے
سب عرشِ کبریا کے ستارے اسی میں تھے

گردوں پہ ناز کرتی تھی اس دشت کی زمیں
کہتا تھا آسمانِ دہم چرخ ہضمتیں
پردے تھے رشک پردۂ چشمانِ حور میں
تاروں سے تھا فلک اسی خرمن کا خوشہ چیں
دیکھا جو نور شمسۂ کیواں جناب پر
کیا کیا ہنسی ہے صبحِ گل آفتاب پر

ناگاہ چرخ پر خطِ ابیض ہوا عیاں
تشریف جا نماز پہ لائے شہ زماں
سجاد بچھ گئے عقبِ شاہ انس و جاں
تاروں سے تھا فلک اسی خرمن کا خوشہ چیں
دیکھا جو نور شمسۂ حسن سے اکبرِ مہر و نے دی اذاں
ہر اک کی چشم آنسوؤں سے ڈبڈبا گئی
گویا صدا رسول کی کانوں میں آگئی

چپ تھے طیور جھومتے تھے وجد میں شجر
تسبیح خواں تھے برگ و گل غنچہ و ثمر
محوِ ثنا کلوخ دنبا تات و دشت دور
پانی سے منہ نکالے تھے دریا کے جانور
اعجاز تھا کہ دلبِ شپیر کی صدا
ہر خشک و تر سے آئی تھی تکبیر کی صدا

ناموس شاہ روتے تھے خیمے میں زار زار
چپکی کھڑی تھی صحن میں بانو کے نامدار
زینب بلائیں لے کے یہ کہتی تھی بار بار
صدقے نمازیوں کے مؤذن کے میں نثار
کرتے ہیں یوں ثنا وصف ذوالجلال کی
لوگوں اذا سنو مرے یوسف جمال کی

یہ حسنِ صوت اور یہ قرأت یہ شدو مد
حقا کہ افصح الفصحا ہے انہیں کا جد
گویا ہے لحن حضرتِ داؤد با خرد
یارب رکھ اس صدا کو زمانے میں تا ابد
شعبے صدا میں پنکھڑیاں جیسے پھول میں
بلبل چہک رہا ہے ریاضِ رسول میں

میری طرف سے کوئی بلائیں تو لینے جائے
عین الکمال سے تجھے بچے خدا بچائے
وہ لو ذعی کی جس کی طلاقت دلوں کو بھائے
دو دد دن ایک بوند بھی پانی کہ وہ نہ پائے
غربت میں پڑ گئی ہے مصیبت حسین پر
فاقہ یہ تیسرا ہے مرے نورِ عین پر

صف میں ہوا جو نعرۂ قدقامت الصلوٰۃ
قائم ہوئی نامز اٹھے شاہِ کائنات
وہ نور کی صفیں وہ مصلی ملک صفات
قدموں سے جن کی ملتی تھی آنکھیں رہِ نجات
جلوہ تھا تابہ عرشِ معلیٰ حسین کا
مصحف کی لوح تھی کہ مصلی حسین کا

اک صف میں سب محمد و حیدر کے رشتہ دار
اٹھارہ نوجواں تھے اگر کیجیے شمار
پر سب جگر نگار حق آگاہ خاکسار
پیرہ امام پاک کے داتائے رونار
تسبیح ہر طرف تہ افلاک انہیں کی ہے
جس پر درورد پڑھتے ہیں یہ خاک انہیں کی ہے

دنیا سے اٹھ گیا وہ قیام اور وہ قعود
ان کے لیے تھی بندگی واجب الوجود
وہ عجز وہ طویل رکوع اور وہ سجود
طاعت میں نیست جانتے تھے اپنی ہست و بود
طاقت نہ چلنے پھرنے کی تھی ہاتھ پاؤں میں
گر گر کے سجدے کر گئے تیغوں کی چھاؤں میں

ہاتھ ان کے جب قنوت میں اٹھے سوئے خدا
خود ہوگئے فلک پہ اچابت کے باب وا
تھرائے آسماں بلا عرش کبریا
شہ پر تھے دونوں ہاتھ پے طائر دعا
وہ خاکسار محوِ تضرع تھے فرش پر
روح القدس کی طرح دعائیں تھیں عرش پر

فارغ ہوئے نماز سے جب قبلۂ انام
آئے مصافحے کو جو انان تشنہ کام
چومے کسی نے دستِ شہنشاہ خاص و عام
آنکھٰں ملیں قدم پہ کسی نے با حترام
کیا دل تھے کیا سپاہِ رشید و سعید تھی
باہم مانقے تھے کہ مرنے کی عید تھی

بیٹھے تھے جا نماز پہ شاہِ فلک سریر
ناگہ قریب آ کے گرے تین چار تیر
دیکھا ہر اک نے مڑ کے سوئے لشکرِ شریر
عباس اٹھے تول کے شمشیر بے نظیر
پروانہ تھے سراج امامت کے نور پر
روکی سپر حضور کرامت ظہور پر

اکرب سے مڑکے کہنے لگے سرورِ زماں
تم جا کے کہہ دو خیمے میں یہ اے پدر کی جاں
باندھے ہے سر کشی پر کمر لشکرِ گراں
بچوں کو لے کے صحن سے ہٹ جائیں بیبیاں
غفات میں تیرے کوئی بچہ تلف نہ ہو
ڈر ہے مجھے کہ گردنِ اصغر ہدف نہ ہو

کہتے تھے یہ پسر سے شۂ آسماں سریر
فضہ پکاری ڈیوڑھی سے اے خلق کے امیر
ہے ہے علی کی بیٹیاں کس جا ہوں گو شہ گیر
اصغر کے گاہوارے تک آکر گرے ہیں تیر
گرمی میں ساری رات یہ گھٹ گھٹ کے روئے ہیں
بچے ابھی تو سرد ہوا پا کے سوئے ہیں

باقر کہیں پڑا ہے سکینہ کہیں ہے غش
گرمی کی فصل یہ تب و تاب اور یہ عطش
رو رو کے سو گئے ہیں صغیر ان ماہ وش
بچوں کو لے کے یاں سے کہاں جائیں فاقہ کش
یہ کس خطا پہ تیر پیا پے برستے ہیں
ٹھنڈی ہوا کے واسطے بچے ترستے ہیں

ٹھے یہ شور سن کے امامِ فلک وقار
ڈیوڑھی تک آئے تک ڈھالوں کو رد کے رفیق و یار
فرمایا مڑکے چلتے ہیں اب بہرِ کارزار
کمریں کسو جہاد پہ منگواؤ راہوار
دیکھیں فضا بہشت کی دل باغ باغ ہو
امت کے کام سے کہیں جلدی فراغ ہو

فرما کے یہ حرم میں گئے شاہِ بحروبر
ہونے لگیں صفوں میں کمر بندیاں ادھر
جو شن پہن کے حضرتِ عباس نامور
دروازے پہ ٹہلنے لگے مثلِ شیرِ نر
پرتو سے رخ کے برق چمکتی تھی پاک پر
تلوار ہاتھ میں تھی سپرِ دوش پاک پر

شوکت میں رشک تاج سلیمان تھا خودِ سر
کلغی پہ لاکھ بار تصدق ہما کے پر
دستانے دونوں فتح کا مسکن ظفر کا گھر
وہ رعب الامان وہ تہور کہ الحذر
جب ایسا بھائی ظلم کی تیغوں میں آر ہو
پھر کس طرح نہ بھائی کی چھاتی پہاڑ ہو

خیمے میں جا کے شہ نے یہ دیکھا حرم کا حال
چہرے تو فق ہیں اور کھلے ہیں سردوں کے بال
زینب کی یہ دعا ہے کہ اے رب ذوالجلال
بچ جائے اس فساد سے خیر النسا کا لال
بانوئے نیک نام کی کھیتی ہری رہے
صندل سے مانگ بچوں سے گودی بھری رہے

آفت میں ہے مسافرِ صحرائے کربال
بے کس پہ یہ چڑھائی ہے سید پہ یہ جفا
غربت میں ٹھن گئی جو لڑائے تو ہوگا کیا
ان ننھے ننھے بچوں پہ کر رہ اے خدا
فاقوں سے جاں بلب ہیں عطش سے ہلاکِ ہیں
یارب ترے رسول کی ہم آلِ پاک ہیں

سر پر نہ اب علی نہ رسولِ فلک وقار
گھر لٹ گیا گذر گئیں خاتونِ روزگار
اماں کے بعد روئی حصن کو میں سوگار
دنیا میں اب حسین ہے ان سب کا یادگار
تو داد دے مری کہ عدالت پناہ ہے
کچھ اس پہ بن گئی تو یہ مجمع تباہ

بولے قریب جا کے شہِ آسماں جناب
مضطر نہ ہو دعائیں ہیں تم سب کی مستجاب
مغرور ہیں خطا پہ ہیں یہ خانماں خراب
خود جا کے میں دکھاتا ہوں ان کو رہِ صواب
موقع بہن نہیں ابھی فریاد و آہ کا
لاؤ تبرکات رسالت پناہ کا

معراج میں رسول نے پہنا تھا جو لباس
کشتی میں لائیں زینب اسے شاہِ دیں کے پاس
سر پر رکھا عمامۂ سردارِ حق شناس
پہنی قبائے پاکِ رسول فلک اساس
برمیں درست و چست تھا جامہ رسول کا
رومال فاطمہ کا عمامہ رسول کا

شملے دو سرے جو پڑے تھے بصد وقار
ثابت یہ تھا کہ دوش پہ گیسو پڑے ہیں چار
بل کھا رہا تھا زلفِ سمن بو کا تار تار
جس کے ہر ایک مو پہ خطا و ختن نثار
مشک و عبیر و عود اگر ہیں تو ہیچ ہیں
سنبل پہ کیا کھلیں گے یہ گیسو کے پیچ میں

کپڑوں سے آ رہی تھی رسولِ زمن کی بو
دولھا نے سونگھی ہوگی نہ ایسی دلہن کو بی
حیدر کی فاطمہ کی حسین و حسن کی بو
پھیلی ہوئی تھی چار طرف پنجتن کی بو
لٹتا تھا عطر دادیِ عنبر سرشت میں
گل جھومتے تھے اغ میں رضواں بہشت میں

پوشاک سب پہن چکے جس دم شۂ زمن
لیکر بلائیں بھائی کی رونے لگی بہن
چلائی ہائے آج نہیں حیدر و حسن
اماں کہاں سے لائے تمہیں اب یہ بے وطن
رخصت ہے اب رسول کے یوسف جمال کی
صدقے گئی بلائیں تولو اپنے لال کی

صندوق اسلحہ کے جو کھلوائے شاہ نے
پیٹا منہ اپنا زینبِ عصمت پناہ نے
پہنی زرہ امامِ فلک بارگاہ نے
بازو پہ جو شنین پڑھے عزو جاہ نے
جوہر بدن کے حسن سے سارے چمک گئے
حلقے تھے جتنے اتنے سارے چمک گئے

یاد آگئے علی نظر آئی جو ذوالفقار
قبضے کو چوم کر شۂ دیں روئے زار زار
تولی جو لے کے ہاتھ میں شمشیرِ آبدار
شوکت نے دی صدا کہ تری شان کے نثار
فتح و ظفر قریب ہو نصرت قریب ہو
زیب اس کی تجھ کو ضرب عدو کو نصیب ہو

باندھی کمر سے تیغ جو زہرا کے لال نے
پھاڑا فلک پہ اپنا گریباں ہلال نے
دستانے پہنے سرورِ قدسی خصال نے
معراج پائی دوش پہ حمزہ کی ڈھال نے
رتبہ بلند تھا کہ سعادت نشان تھی
ساری سپر میں مہر نبوت کی شان تھی

ہتھیار ادھر لگا چکے آقائے خاص و عام
تیار ادھر ہوا علم سید انام
کھولے سروں کو گرد تھی سیدانیاں تمام
روتی تھی تھامے چوب علم خواہرِ امام
تیغیں کمر میں دوش پہ شملے پڑے ہوئے
زینب کے لال زیر علم آکھڑے ہوئے

گردانے دامنوں کو قبا کے وہ گل عذار
مرفق تک آشینوں کو الٹے بصد و قار
جعفر کا رعب دبدبۂ شیر کردگار
بوٹے سے ان کے قد پہ نمودار و نامدار
آنکھیں ملٰن علم کے پھریرے کو چوم کے
رایت کے گرد پھرنے لگے جھوم جھوم کے

گہ ماں کو دیکھتے تھے گہ جانبِ علم
نعرہ کبھی یہ تھا کہ نثارِ شۂ امم
کرتے تھے دونوں بھائی کبھی مشورے بہم
آہستہ پوچھتے کبھی ماں سے وہ ذی حشم
کیا قصد ہے علی ولی کے نشان کا
اماں کسے ملے گا علم نانا جان کا

کچھ مشورہ کریں جو شہنشاہ خوش خصال
ہم بھی محق ہیں آپ کو اس کار ہے خیال
پاس ادب سے عرض کی ہم کو نہیں مجال
اس کا بھی خوف ہے کہ نہ ہو آپ کو ملال
آقا کے ہم غلام ہیں اور جانثار ہیں
عزت طلب ہیں نام کے امیدوار ہیں

بے مثل تھے رسول کے لشکر کے سب جواں
لیکن ہمارے جسد کو نبی نے دیا نشاں
خیبر میں دیکھتا رہا منہ لشکرِ گراں
پایا علم علی نے مگر وقتِ امتحاں
طاقت میں کچھ کمی نہیں گو بھوکے پیاسے ہیں
پوتے انہیں کے ہم ہیں انہیں کے نواسے ہیں

زینب نے تب کہا تمہیں اس سے کیا ہے کام
کیا دخل مجھ کو مالک و مختار ہیں امام
دیکھو نہ کیجو بے ادبانہ کوئی کلام
بگڑوں گی میں جو لوگے ظلم کا زباں سے نام
لو جاؤ بس کھڑے ہو الگ ہاتھ جوڑ کے
کیوں آئے ہو یہاں علی اکبر کو چھوڑ کے

سر کو، ہٹو، بڑھو، نہ کھڑے ہو علم کے پاس
ایسا نہ ہو کہ دیکھ لیں شاہ فلک اساس
کھوتے ہو اور آئے ہو تم مرے حواس
بس قابل قبول نہیں ہے یہ التماس
رونے لگوگے تم جو برا یا بھلا کہوں
اس ضد کو بچنے کے سوا اور کیا کہوں

عمریں قلیل اور ہوس منصب جلیل
اچھا نکالو قد کے بھی بڑھنے کی کچھ سبیل
ماں صدقے جائے گرچہ یہ ہمت کی ہے دلیل
ہاں اپنے ہم سنوں میں تمہارا نہیں عدیل
لازم ہے سوچے غور کرے پیش و پس کرے
جو ہو سکے نہ کیوں بشر اس کی ہوس کرے

ان ننھے منھے ہاتھوں سے اٹھے گا یہ علم
چھوٹے قدوں میں سب سے سنوں میں سبھوں سے کم
نکلیں تنوں سے سبط نبی کے قدم پہ قدم
عہدہ یہی ہے بس یہی منصب یہ حشم
رخصت طلب اگر ہو تو یہ میرا کام ہے
ماں صدقے جائے آج تو مرنے میں نام ہے

پھر تم کو کیا بزرگ تھے گر فخرِ روزگار
زیبا نہیں ہے جو وصفِ اضافی افتخار
جو ہر وہ ہیں جو تیغ کرے آپ آشکار
دکھلا دو آج حیدر و جعفر کی کارزار
تم کیوں کہو کہ لالہ خدا کے ولی کے ہیں
فوجیں پکاریں خود کہ نواسے علی کے ہیں

کیا کچھ علم سے جعفر طیار کا تھا نام
یہ بھی تھی اک عطائے رسول فلک مقام
بگڑی لڑائیوں میں بن آئے انہیں سے کام
جب کھینچتے تھے تیغ تو ہلتا تھا روم و شام
بے جاں ہوئے تو نخل وغانے ثمر دیے
ہاتھوں بدلے حق نے جواہر کے پردے

لشکر نے تین روز ہزیمت اٹھائی جب
بخشا علم رسول خدا نے علی کو تب
مرحب کو قتل کرکے بڑھا جب وہ شیر رب
دربند کرکے قلعہ کا بھاگی سپاہ سب
اکھڑا وہ یوں گراں تھا جودر سنگِ سخت سے
جس طرح توڑ لے کوئی پتا درخت سے

نرغے میں تین دن سے ہے مشکل کشا کا لال
اماں کا باغ ہوتا ہے جنگل میں پائمال
پوچھا نہ یہ کہ کھولے ہیں تم نے سر کے بال
میں لٹ رہی ہوں اور تمہیں منصب کا ہے خیال
غم خوار تم مرے ہو نہ عاشق امام کے
معلوم ہو گیا مجھے طالب ہو نام کے

ہاتھوں کو جوڑ جوڑ کے بولے وہ لالہ فام
غصے کو آپ تما لیں اے خواہر امام
واللہ کیا مجال جواب لین علم کا نام
کھل جائے گا لڑیں گے جو یہ با وفا غلام
فوجیں بھگا کے گنجِ شہیداں میں سوئیں گے
تب قدر ہوگی آپ کو جب ہم نہ ہوئیں گے

یہ کہہ کے بس ہٹے جو سعادت نشاں پسر
چھاتی بھر آئی ماں نے کہا تھا کہ جگر
دیتے ہو اپنے مرنے کی پایرو مجھے خبر
ٹھہرو ذرا بلائیں تو لے لے یہ نوحہ گر
کیا صدقے جاؤں ماں کی نصیحت بری لگی
بچو یہ کیا کہا کہ جگر پر چھری لگی

زینب کے پاس آکے یہ بولے شۂ زمن
کیوں تم نے دونوں بیٹوں کو باتیں سنیں بہن
شیروں کے شیر عاقل و جرار و صف شکن
زینب وحید عصر ہیں دونوں یہ گل بدن
یوں دیکھنے کو سب میں بزرگوں کے طور ہیں
تیور ہی ان کے اور ارادے ہی اور ہیں

نو دس برس کے سن یہ جرأت یہ ولولے
بچے کسی نے دیکھے ہیں ایسے بھی من چلے
اقبال کیونکہ ار کے نہ قدموں سے منہ ملے
کس گود میں بڑے ہوئے کس دودھ سے پلے
بے شک یہ ورثہ دارِ جنابِ امیر ہیں
پر کیا کہوں کہ دونوں کی عمریں صغیر ہیں

اب تم جسے کہو اسے دیں فوج کا علم
کی عرض جو صلاح شۂ آسماں حشم
فرمایا جب سے اٹھ گئیں زہرائے باکرم
اس دن سے تم کو ماں کی جگہ جانتے ہیں ہم
مالک ہو تم بزرگ کوئی ہو کہ خرد ہو
جس کہو اسی کو یہ عہدہ سپرد ہو

بولیں بہن کہپ آپ بھی تولیں کسی کا نام
ہے کس طرف توجہ سردار خاص و عام
گر مجھ سے پوچھتے ہیں شۂ آسماں مقام
قرآں کے بعد ہے تو ہے بس آپ کا کلام
شوکت میں قد میں شان میں ہم کسر کوئی نہیں
عباس نام دار سے بہتر کوئی نہیں

عاشق غلام خادمِ دیرینہ جاں نثار
فرزند بھائی زینتِ پہلو وفا شعار
جرار یادگارِ پدر فخر روزگار
راحت رساں مطیع نمودار نام دار
صفدر ہے شیر دل ہے بہادر ہے نیک ہے
بے مثل سیکڑوں میں ہزاروں میں ایک ہے

آنکھوں میں اشک بھر کے یہ بولے شہ رمن
ہاں تھی یہی علی کی وصیت ابھی اے بہن
اچھا بلائیں آپ کدھر ہے وہ صف شکن
اکبر چچا کے پاس گئے سن کے یہ سخن
کی عرض انتظار ہے شاہِ غیور کو
چلیے پھوپھی نے یاد کیا ہے حضور کو

عباس آئے ہاتھوں کو جوڑے حضورِ شاہ
جاؤ بہن کے پاس یہ بولا وہ دیں پناہ
زینب وہیں علم لیے آئیں بہ عزو جاہ
بولے نشاں کے لے کے شۂ عرش بارگاہ
ان کی خوشی وہ ہے جو رضا پنجتن کی ہے
لو بھائی لو علم پہ عنایت بہن کی ہے

رکھ کر علم پہ ہاتھ جھکا وہ فلک وقار
ہمشیر کے قدم پہ ملا منہ بہ افتخار
زینب بلائیں لے کے یہ بولیں کہ میں نثار
عباس فاطمہ کی کمائی سے ہوشیار
ہو جائے آج صلح کی صورت تو کل چلو
ان آفتوں سے بھائی کو لے کر نکل چلو

کی عرض میرے جس پہ جس وقت تک ہے سر
ممکن نہیں ہے یہہ کہ بڑے فوج بد گہر
تیغیں کھنچیں جو لاکھ تو سینہ کروں سپر
دیکھیں اٹھا کے آنکھ یہ کیا تاب کیا جگر
ساونت ہیں پسر اسدِ ذوالجلال کے
گر شیر ہو تو پھینک دیں آنکھیں نکال کے

منہ کر کے سوئے قبرِ علی پھر کیا خطاب
ذرے کو آج کردیا مولا نے آفتاب
یہ عرض خاکسار کی ہے یا ابوتراب
آقا کے آگے میں ہوں شہادت سے کامیاب
سر تن سے ابنِ فاطمہ کے رو برو گرے
شپیر کے پسینے پہ میرا لہو گرے

یہ سن کے آئی زوجہ عباس نامور
شوہر کی سمت پہلے کنکھیوں سے کی نظر
لیں سبط مصطفیٰ کی بلائین بچشمِ تر
زینب کے گرد پھر کے یہ بولی وہ نوحہ گر
فیض آپ کا ہے اور تصدق امام کا
عزت بڑھی کنیز کی رتبہ غلام کا

سر کو لگا کے چھاتی زینب نے یہ کہا
تو اپنی مانگ کوکھ سے ٹھنڈی رہے سدا
کی عرض مجھ سے لاکھ کنیزیں تو ہوں فد
بانوے نامور کہ سہاگن رکھے خدا
بچے جییں ترقیِ اقبال و جاہ ہو
سائے میں آپ کے علی اکبر کا بیاہ ہو

قسمت وطن میں خیر سے پھر شہ کو لے کے جاہ
یہ شرب میں شور ہو کہ سفر سے حسین آئے
ام البنین جاہ و حشم سے پسر کو پائے
جلدی شبِ عروسیِ اکبر خدا دکھائے
مہندی تمہارا لال ملے ہاتھ پاؤں میں
لاؤ دلہن کو بیاہ کے تاروں کی چھاؤں میں

ناگاہ آ کے بالی سکینہ نے یہ کہا
کیسا ہے یہ ہجوم کدھر ہیں مرے چچا
عہدہ علم کا ان کو مبارک کرے خدا
لوگو مجھے بلائیں تو لینے دوا اک ذرا
شوقت خدا بڑھائے مرے عمو جان کی
میں بھی تو دیکھوں شان علی کے نشان کی

عباس مسکراکے پکارے کہ آؤ آؤ
عمو نچار پیاس سے کیا حال ہے بتاؤ
بولی لپٹ کے وہ کہ مری مشک لیتے جاؤ
اب تو علم ملا تمہیں پانی مجھے پلاؤ
تحفہ کوئی نہ دیجیے نہ انعام دیجیے
قربان جاؤں پانی کا جام دیجیے

فرمایا آپ نے کہ نہیں فکر کا مقام
باتوں پہ اس کی روتی تھیں سیدانیاں تمام
کی عرض آکے ابنِ حسن نے کہ یا امام
انبوہ ہے بڑھی چلی آتی ہے فوجِ شام
عباس اب علم لیے باہر نکلتے ہیں
ٹھہرو بہن سے مل کے لگے ہم بھی چلتے ہیں

ناگہ بڑھے علم لیے عباس باوفا
دوڑے سب اہلِ بیت کھلے سربرہنہ پا
حضرت نے ہاتھ اٹھا کے یہ اک ایک سے کہا
لو الوداع اے حرم پاک مصطفی
صبحِ شبِ فراق ہے پیاروں کو دیکھ لو
سب مل کے ڈوبت ہوئے تاروں کو دیکھ لو

شہ کے قدم پہ زینبِ زار و حزیں گری
بانو بچھاڑ کھا کے پسر کے قریں گری
کلثوم تھرتھرا کے بروئے زمیں گری
باقر کہیں گرا تو سکینہ کہیں گری
اجڑا چمن ہر اک گلِ تازہ نکل گیا
نکلا علم کہ گھر سے جنازہ نکل گیا

دیکھی جو شانِ حضرتِ عباس عرش جاہ
آگے بڑھی علم کے پس از تہنیت سپاہ
نکلا حرم سرا سے دو عالم کا بادشاہ
نشتر بلد تھی بنت علی کی فغا و آہ
رہ رہ کے اشک بہتے تھے روئے جناب سے
شبنم ٹپک رہی تی گل آفتاب سے

مولا چڑھے فرس پہ محمد کی شان سے
ترکش لگایا ہرے نے پہ کس آن بان سے
نکلا یہ جن و انس و ملک کی زبان سے
اترا ہے پھر زمیں پہ براق آسمان سے
سارا چلن خرام میں کبک روی کا ہے
گھونگھٹ نئی دلہن کا ہے چہرہ پری کا ہے

غصے میں انکھڑیوں کے ابلنے کو دیکھیے
جو بن میں جھوم جھوم کے چلنے کو دیکھیے
سانچے میں جوڑ بند کے ڈھنلنے کو دیکھیے
تم کر کنوتیوں کے بدلنے کو دیکھیے
گردن میں ڈالے ہاتھ یہ پریوں کو شوق ہے
بالا ودی میں اس کو ہما پر بھی فوق ہے

تھم کر ہوا چلی فرسِ خوش قدم بڑھا
جوں جوں وہ سوئے دشتِ بڑھا اور دم بڑھا
گھوڑوں کی لیں سواروں نے باگیں علم بڑھا
رایت بڑھا کہ سروِ ریاضِ ارم بڑھا
پھولوں کو لے کے بادِ بہاری پہونچ گئی
بستانِ کربلا میں سواری پہونچ گئی

پنجہ ادھر چمکتا تھا اور آفتاب ادھر
آس کی ضیا تھی خاک پہ ضو اس کی عرش پر
زر ریزی علم پہ ٹھہرتی نہ تھی نظر
دولھا کا رخ تھا سونے کے سہرے میں جلوہ گر
تھے دو طرف جو دو علم اس ارتقاع کے
الجھے ہوئے تھے تار خطوطِ شعاع کے

اللہ ری سپاہ خدا کی شکوہ و شاں
جھکنے لگے جنود ضلالت کے بھی نشاں
کمریں کسے علم کے تلے ہاشمی جواں
دنیا کی زیبِ دین کی عزت جہاں کی جاں
ایک ایک دود ماں علی کا چراغ تھا
جس کی بہشت پر تھا تفوق و باغ تھا

لڑکے وہ سات آٹھ سہی قد سمن عذار
گیسو کسی کے چہرے پہ دو اور کسی کے چار
حیدر کا رعب نرگسی آنکھوں سے آشکار
کھیلیں جو نیمچوں سے کریں شیر کا شکار
نیزوں کے سمت چاند سے سینے تنے ہوئے
آئے تھے عیدگاہ میں دولھا بنے ہوئے

غرفوں سے حوریں دیکھ کے کرتی تھیں یہ کلام
دنیا کا باغ بھی ہے عجب پرفضا مقام
دیکھو درود پڑھ کے سوئے لشکرِ امام
ہم شکلِ مصطفی ہے یہی عرش اختتام
رایت لیے وہ لال خدا کے ولی کا ہے
اب تک جہاں میں ساتھ نبی و علی کا ہے

دنیا سے اٹھ گئے تھے جو پیغمبرِ زماں
ہم جانتے تھے حسن سے خالی ہے اب جہاں
کیونکر سوئے زمیں نہ جھکے پیر آسماں
پیدا کیا ہے حق نے عجب حسن کا جواں
سب خوبیوں کا خاتمہ بس اس حسیں پہ ہے
محبوب حق ہیں عرش پہ سایہ زمیں پہ ہے

ناگاہ تیر ادھر سے چلے جانب، امام
نعرے کیے کہ خوف سے ہلنے لگی زمیں
نکلے ادھر سے شہ کے رفیقانِ تشنہ کام
بے سر ہوئے پرون میں سر ان سپاہ شام
بالا کبھی تھی تیغ کبھی زیر تنگ تھی
ایک اک کی جنگ مالک اشتر کی جنگ تھی

نکلے پے جہاد عزیزانِ شاہِ دیں
نعرے کیے کہ خوف سے ہلنے لگی زمیں
روباہ کی صفوں پہ چلے شیر خشم گیں
کھینچی جو تیغ بھول گئے صف کشی لعیں
بجلی گری پروں پہ شمال و جنوب کے
کیا کیا لڑے ہیں شام کے بادل میں ڈوب کے

اللہ رے علی کے نواسوں کی کارزار
دونوں کے نیچے تھے کہ چلتی تھی ذوالفقار
شانہ کٹا کسی نے جو روکا سپر پہ دار
گنتی تھی زخمیوں کی نہ کشتوں کا کچھ شمار
اتنے سوار قتل کیے تھوڑی دیر میں
دونوں کے گھوڑے چھپ گئے لاشوں کے ڈھیر میں

وہ چھوٹے چھوٹے ہاتھ وہ گوری کلائیاں
آفت کی پھرتیاں تھیں غضب کی صفائیاں
ڈر ڈر کے کاٹتے تھے کہاں کش کنائیاں
فوجوں میں تھیں نبی و علی کی دہائیاں
شوکت ہو ہوتھی جنابِ امیر کی
طاقت دکھا دی شیروں نے زینب کے شیر کی

کس حسن س حسن کا جوانِ حسیں لڑا
گھر گھر کے صورت اسد خشم گیں لڑا
وہ دن کی بھول پیاس میں وہ مہ جبیں لڑا
سہرا الٹ کے یوں کوئی دولھا نہیں لڑا
حملے دکھادیے اسدِ کردگار کے
مقتل میں سوئے ازرق شامی کو مار کے

چمکی جو تیغِ حضرت عباس عرش جاہ
روح الامیں پکارکے اللہ کی پناہ
ڈھالوں میں چھپ گیا پسرِ سعد روسیاہ
کشتوں سے بند ہو گی امن و اماں کی راہ
چھٹا جو شیر شوق میں دریا کی سیر کے
لے لی ترائی تیغوں کی موجوں میں تیر کے

بے سر ہوئے موکلِ چشمہ فرات
ہل چل میں مثلِ موج صفوں کو نہ تھا ثبات
دریا مین گر کے فوت ہوئے کتنے بد صفات
گویا حباب ہو گئے تھے نقطۂ نبات
عباس بھر کے مشک کو یاں تشنہ لب لڑے
جس طرح نہر واں میں امیرِ عرب لڑے

آفت بھی حرب و ضرب علی اکبر دلیر
غصے میں جھپٹے صید پہ جیسے گرسنہ شیر
سب سر بلند پست زبردست سب تھے زیر
جنگل میں چار سمت ہوئے زخمیوں کے دھیر
سر ان کے اترے تن سے جو تھے رن چڑھے ہوئے
عباس سے بھی جنگ میں کچھ تھے بڑھے ہوئے

تلواریں برسیں صبح سے نصف النہار تک
ہلتی رہی زمین لرزتے رہے فلک
کانپا کیے پروں کو سمیٹے ہوئے ملک
نعرے نہ پھیر وہ تھے نہ وہ تیغوں کی تھی چمک
ڈھالوں کا دور برچھیوں کا اوج ہوگیا
ہنگامِ ظہر خاتمہ فوج ہوگیا

لاشے سبھوں کے سبطِ نبی خود اٹھا کے لائے
قاتل کسی شہید کا سر کاٹنے نہ پائے
دشمن کو بھی نہ دوست کی فرقت خدا دکھائے
فرماتے تھے بچھڑ گئے سب ہم سے ہائے ہائے
اتنے پہاڑ گر پڑیں جس پر وہ خم نہ ہو
گر سو برس جیوں تو یہ مجمع بہم نہ ہو

لاشے تو سب کے گرد تھے اور بیچ میں امام
ڈوبی ہوئی تھی خوں میں نبی کی قبا تمام
افسردہ و حزیں و پریشان و تشنہ کام
برچھی تھی دل کو فتح کے باجوں کی دھوم دھام
اعدا کسی شہید کا جب نام لیتے تھے
تھرا کے دونوں ہاتھوں سے دل تھام لیتے تھے

پوچھو اسی سے جس کے جگر پر ہوں اتنے داغ
اک عمر کا ریاض تھا جس پر لٹا وہ باغ
فرصت نہ اب بکا سے ہے فراغ
جو گھر کی روشنی تھے وہ گل ہو گئے چراغ
پڑتی تھی دھوپ سب کے تنِ پاش پاش پر
چادر بھی اک نہ تھی علی اکبر کی لاش پر

مقتل سے آئے خیمہ کے در پر شہ زمین
پر شدِ عطش سے نہ تھی طاقتِ سخن
پردے پہ ہاتھ رکھ کے پکارے بصد محن
اصغر کو گاہوارے سے لے آئے اے بہن
پھر ایک بار اس مہ انور کو دیکھ لیں
اکبر کے شیرخوار برادر کو دیکھ لیں

خیمے سے دوڑے آل پیمبر برہنہ سر
اصغر کو لائیں ہاتھوں پہ بانئے نوحہ گر
بچے کو لے کے بیٹھ گئے آپ خاک پر
منہ سے ملے جو ہونٹ تو چونکا وہ سیم بر
غم کی چری چلی جگرِ چاک چاک پر
بٹھلا لیا حسین نے زانوئے پاک پر

بچے سے ملتفت تھے شۂ آسماں سریر
تھا اس طرف کمیں میں بن کا بل شریر
مارا جو تین بھال کا اس بے حیا نے تیر
بس دفعتاً نشانہ ہوئی گردنِ صغیر
تڑپا جو شیرخوار تو حضرت نے آہ کی
معصوم ذبح ہو گیا گودی میں شاہ کی

جس دم تڑپ کے مر گیا وہ طفلِ شیر خوار
چھوٹی سی قبر تیغ سے کھودی بحالِ زار
بچے کو دفن کرکے پکارا وہ ذی وقار
اے خاکِ پاک حرمتِ مہماں نگاہ دار
دامن میں رکھ اسے جو محبت علی کی ہے
دولت ہے فاطمہ کی امانت علی کی ہے

یہ کہہ کے آئے فوج پہ تولے ہوئے حسام
آنکھیں لہو تھیں رونے سے چہرہ تھا سرخ فام
زیبِ بدن گئے تھے بصد عزو احتشام
پیراہنِ مطہر پیغمبر انام
حمزہ کی ڈھال تیغِ شۂ لافتا کی تھی
برمیں زرہ جناب رسول خدا کی تھی

رستم تھا درع پوش کہ پاکھر میں راہوار
جرار بردبار سبک رو وفا شعار
کیا خوشمنا تھا زیں طلا کار و نقرہ کار
اکسیر تھا قدم کا جسے مل گیا غبار
خوش خو تھا خانہ زاد تھا دلد نژاد تھا
شپیر بھی سخی تھے فرس بھی جواد تھا

گرمی کا روزِ جنگ کی کیونکر کروں بیاں
ڈر ہے کہ مثلِ شمع نہ جلنے لگے زباں
وہ لوں کہ الحذر وہ حرارت کہ الاماں
رن کی زمیں تو سرخ تی اور زرد آسماں
آبِ خنک کی خلق ترستی تھی خاک پر
گویا ہوا سے آگ برستی تھی خاک پر

وہ دونوں وہ آفتاب کی حدت وہ تاب و تب
کالا تھا رنگ دھوپ دن کا مثالِ شب
خود نہرِ حلقہ کے سبھی سوکھے ہوئے تھے لب
خیمے تھے جو حبابوں کے تپتے تھے سب کے سب
اڑتی تھی خاک خشک تھا چشمہ حیات کا
کھولا ہوا تھا دھوپ سے پانی فرات کا

جھیلوں سے چارپائے نہ اٹھتے تھے تابہ شام
مسکن میں مچھلیوں کے سمندر کا تھا مقام
آہو جو کاہلے تھے تو چیتے سیاہ فام
پتھر پگھل کے رہ گئے تھے مثلِ مومِ خام
سرخی اڑی تھی پھولوں سے سبزہ گیاہ سے
پانی کنوؤں میں اترا تھا سائے کی چاہ سے

کوسوں کسی شجر میں نہ گل تھے نہ برگ و بار
ایک ایک نخل جل رہا تھا صورتِ چنار
ہنستا تھا کوئی گل نہ مہکتا تھا سبزہ زار
کانٹا ہوئی تھی پھول کی ہر شاخ باردار
گرمی یہ تھی کی زیست سے دل سب کے سرد تھے
پتے بھی مثل چہرۂ مدقوق زرد تھے

آبِ رواں سے منہ نہ اٹھاتے تھے جانور
جنگل میں چھپتے پھرتے طائر ادھر ادھر
مردم تھی سات پروں کے اندر عرق میں تر
خسخانۂ مژہ سے نکلتی نہ تھی نظر
گرچشم سے نکل کے ٹھہر جائے راہ میں
پڑ جائیں لاکھوں آبلے پائے نگاہ میں

شیر اٹھتے تھے نہ دھوپ کے مارے کچھار سے
آہو نہ منہ نکالتے تھے سبزہ زار سے
آئینہ مہر کا تھا مکدر غبار سے
گردوں کو تپ چڑھی تھی زمیں کے بخار سے
گرمی سے مضطرب تھا زمانہ زمین پر
بھن جاتا تھا جو گرتا تھا دانہ زمین پر

گرداب پر تھا شعلۂ جوالہ کا گماں
انگارے تھے حباب تو پانی شرر فشاں
منہ سے نکل پڑی تھی ہر اک موج کی زباں
تہ پہ تھے سب نہنگ مگر تھی بسوں پہ جال
پانی تھا آگ گرمئ روزِ حساب تھی
ماہی جو سیخ موج تک آئی کباب تھی

آئینہ فلک کو نہ تھی تاب تب کی تاب
چھپنے کو برق چاہتی تھی دامنِ سحاب
سب سے ہوا تھا گرم مزاجوں کو اضطراب
کافورِ صبح ڈھونڈھتا پھرتا تھا آفتاب
بھڑکی تھی آگ گنبد چرخِ اثیر میں
بادل چھپے تھے سب کرہ زمہریر میں

اس دھوپ میں کھڑے تھے اکیلے شہ امم
نے دامن رسول تھانے سایۂ علم
شعلے جگر سے آہ کے اٹھتے تھے دمبدم
اودے تھے لب زبان میں کانٹے کمر میں خم
بے آپ تیسرا تھا جو دن میہمان کو
ہوتی تھی بات بات میں لکنت زبان کو

گھوڑوں کو اپنے کرتے تھے سیراب سب سوار
آتے تھے اونٹ گھاٹ پہ باندھے ہوئے قطار
پیتے تھے آبِ نہر پرند آکے بے شمار
سقے زمیں پہ کرتے تھے چھڑکاؤ بار بار
پانی کا دام و دد کو پلانا ثواب تھا
اک ابن فاطمہ کے لیے قحطِ آب تھا

سر پر لگائے تھا پسرِ سعد چتر زر
خادم کئی تھے مروحہ جنباں ادھر ادھر
کرتے تھے آب پاش مکرر زمیں کو تر
فرزندِ فاطمہ پہ نہ تھا سایۂ شجر
وہ دھوپ دشت کی وہ جلال آفتاب کا
سونلا گیا تھا رنگ مبارک جناب کا

کہتا تھا ابنِ سعد کہ اے آسماں جناب
بیعت جو کیجیے اب بھی تو حاضر ہے جامِ آب
فرماتے تھے حسین کہ اد خانماں خراب
دریا کو خاک جانتا ہے ابنِ بوتراب
فاسق ہے پاس کچھ تجھے اسلام کا نہیں
آبِ بقا ہو یہ تو مرے کام کا نہیں

کہہ دوں تو خوان لے کے خود آئیں ابھی خلیل
چاہوں تو سلسبیل کو دم میں کروں سبیل
کیا جام آب کا تو مجھے دے گا اور ذلیل
بے آبرو خسیس ستمگردنی بخیل
جس پھول پر پڑے ترا سایہ وہ بو نہ دے
کھلوائے فصد تو تو یا کبھی رگ لہو نہ دے

گر جم کا نام لوں تو ابی جام لے کے آئے
کوثر یہیں رسول کا احکام لے کے آئے
روح الامیں زمیں پہ مرا نام لے کے آئے
لشکر ملک کا فتح کا پیغام لے کے آئے
چاہوں جو انقلاب تو دنیا تمام ہو
الٹے زمین یوں کہ نہ کوفہ نہ شام ہو

فرما کے یہ نگاہ جو کی سوے ذوالفقار
تھرا کے پچھلے پانوں ہٹا وہ ستم شعار
مظلوم پر صفوں سے چلے تیر بے شمار
آواز کوسِ حرب ہوئی آسماں کے پار
نیزے اٹھا کے جنگ پہ اسوار تل گئے
کالے نشان فوجِ سیہ رو کے کھل گئے

وہ دھوم طبلِ جنگ کی وہ بوق کا خروش
کر ہو گئے تھے شور سے کرد بیوں کے گوش
تھرائی یوں زمیں کہ اڑے آسماں کے ہوش
نیزے سے بلا کے نکلے سوار ان درع پوش
ڈھالیں تھیں یوں سروں پہ سوار ان شوم کے
صحرا میں جیسے آئے گھٹا جھوم جھوم کے

لو پڑھ کے چند شعرِ جز شاہ دیں بڑھے
گیتی کے تھام لینے کو روح الامیں بڑھے
مانندِ شیرِ نہ کہیں ٹھہرے کہیں بڑھے
گویا علی الٹے ہوئے آستیں بڑھے
جلوہ دیا جری نے عروسِ مصاف کو
مشکل کشا کی تیغ نے چھوڑا غلاف کو

کاٹھی سے اس طرح ہوئی وہ شعلہ خو جدا
جیسے کنارِ شوق س ہو خوب رو جدا
مہتاب سے شعاع جدا گل سے بو جدا
سینے سے دم جدا رگِ جاں سے لہو جدا
گرجا جو رعد ابر سے بجلی نکل پڑی
محمل میں دم جو گھٹ گیا لیلیٰ نکل پڑی

آئے حسین یوں کہ عقاب آئے جس طرح
آہو پہ شیرِ شہ زہ غاب آئے جس طرح
تابندہ برق سوئے سحاب آئے جس طرح
دوڑا فرس نشیب میں آب آئے جس طرح
یوں تیغِ تیز کوند گئی اس گروہ پر
بجلی تڑپ کے گرتی ہے جس طرح کوہ پر

گرمی میں تیغ برق جو چمکی شرر اڑے
جھونکا چلا ہوا کا جس سن سے تو سر اڑے
پرکالۂ سپر جو ادھر اور ادھر اڑے
روح الامیں نے صاف یہ جانا کہ پر اڑے
ظاہر نشان اسم عزیمت اثر ہوئے
جن پر علی لکھا تھا وہی پر سپر ہوئے

جس پر چلی وہ تیغ دو پارا کیا اسے
کھینچتے ہی چار ٹکڑے دوبارا کیا کیا
واں تھی جدھر اجل نے اشارا کیا اسے
سختی بھی کچھ پڑی تو گوارا کیا اسے
نے زین تھا فرس پہ نہ اسوار زین پر
کڑیاں زرہ کی بکھری ہوئی تھیں زمین پر

آئی چمک کے غول پہ جب سر گرا گئی
دم میں جمی صفوں کو برابر گرا گئی
ایک ایک فقر تن کو زمین پر گرا گئی
سیل آئی زور شور سے جب گھر گرا گئی
آپہونچا اس کے گھاٹ پہ جو مرکے رہ گیا
دریا لہو کا تیغ کے پانی سے بہ گیا

یہ آبرو یہ شعلہ فشانی خدا کی شاں
پانی میں آگ آگ میں پانی خدا کی شاں
خاموش اور تیز زبانی خدا کی شاں
استادہ آب میں یہ روانی خدا کی شاں
لہرائی جب اتر گیا دریا بڑھا ہوا
لہرائی جب اتر گیا دریا بڑھا ہوا
نیزوں تھا ذوالفقار کا پانی چڑھا ہوا

قلب و جناح میمہ و میسرا تباہ
گردن کشانِ امت خیر الور تباہ
جنباں زمیں صفیں تہ و بالا پر اتباہ
بے جان جسم روحِ مسافر سرا تباہ
بازار بند ہو گئے اکھڑ گئے
فوجیں ہوئی تباہ محلے اجڑ گئے

اللہ ری تیزی و برش اس شعلہ رنگ کی
چمکی سوار پر تو خبر لائی تنگ کی
پیاسی فقط لہو کی طلب گار جنگ کی
حاجت نہ سان کی تی اسے اور نہ سنگ کی
خوں سے فلک کو لاشوں سے مقتل کو بھرتی تھی
سو بار روم میں چرخ پہ چڑھتی اترتی تھی

تیغِ خزاں تھی گلشنِ ہستی سے کیا اسے
گھر جس خود اجڑ گیا بستی سے کیا اسے
وہ حق نما تھی کفر پرستی سے کیا اسے
جو آپ سر بلند ہو پستی سے کیا اسے
کہتے ہیں راستی جسے وہ خم کے ساتھ ہے
تیزی زبان کے ساتھ برش دم کے ساتھ

سینے پہ چل گئی تو کلیجہ لہوا ہوا
گویا جگر میں موت کا ناخن فرد ہوا
چمکی تو الامان کا غل چار سو ہوا
جو اس کے منہ پہ آگیا بے آبرو ہوا
رکتا تھا ایک وار نہ دس سے نہ پانچ سے
چہرے سیاہ ہو گئے تھے اس کی آنچ سے

بچھ بچھ گئیں صفوں پہ صفیں وہ جہاں چلی
چمکی تو اس طرف ادھر آئی وہاں چلی
دونوں طرف کی فوج پکاری کہاں چلی
اس نے کہا یہاں وہ پکارا وہاں چلی
منہ کس طرف ہے تیغ زنوں کو خبر نہ تھی
سرگر رہے تھے اور تنوں کو خبر نہ تھی

دشمن جو گھاٹ پر تھے وہ دھوتے تھے جاں سے ہاتھ
گردن سے سر الگ تھا جدا تھے نشاں سے ہاتھ
توڑا کببھی جگر کبھی چھیدا سناں سے ہاتھ
جب کٹ کے گر پڑیں تو پھر آئیں کہاں سے ہاتھ
اب ہاتھ دستیاب نہیں منہ چھپانے کو
ہاں پاؤں رہ گئے ہیں فقط بھاگ جانے کو

اللہ رے خوفِ تیغ شہ کائنات کا
زہرہ تھا آب خوف کے مارے فرات کا
دریا پہ حال یہ تھا ہر اک بد صفارت کا
چارہ فرار کا تھا نہ یارا ثبات کا
غل تھا کہ برق گرتی ہے ہر درع پوش پر
بھاگو خدا کے قہر کا دریا ہے جوش پر

ہر چند مچھلیاں تھیں زرہ پوش سربسر
منہ کھولے چھپی پھرتی تھیں لیکن ادھر ادھر
بھاگی تھی موج چھوڑ کے گرداب کی سپر
تھے تہ نشیں نہنگ مگر آب تھے جگر
دریا نہ تھمتا خوف سے اس برق تاب کے
لیکن پڑے تھے پاؤں میں چھالے حباب کے

آیا خدا کا قہر جدرھ سن سے آگئی
کانوں میں الاماں کی صدا رن سے آگئی
دو کرکے خود زین پہ جو شن سے آگئی
کھنچتی ہوئی زمین پہ تو سن سے آگئی
بجلی گری جو خاک پہ تیغِ جناب کی
آی صدا زمین س یا بوتراب کی

پس پس کے کشمکش سے کماندار مر گئے
چلے تو سب چڑھے رہے بازو اتر گئے
گوشے کٹے کمانوں کے تیروں کے پر گئے
مقتل میں ہو سکا نہ گذرا گذر گئے
دہشت سے ہوش اڑ گئے تھے مرغِ وہم کے
سوفار کھول دیتے تھے منہ سہم سہم کے

تیر افگنی کا جن کی ہر اک شہر میں تھا شور
گوشہ کہیں نہ ملتا تھا ان کو سوائے گور
تاریک شب میں جن کا نشانہ تھا پائے مور
لشکر میں خوف جاں نے انہیں کردیا تھا کور
ہوش اڑ گئے تھے فوجِ ضلالت نشاں کے
پیکاں میں زہ کو رکھتے تھے سوفار جاں کے

صف پر صفیں پروں پر پرے پیش و پس گرے
اسوار پر سوار فرس پر فرس گرے
اٹھ کر زمیں سے پانچ جو بھاگے تو دس گرے
مخبر پہ پیک پیک پر مرکر گرے
ٹوٹے پر شکست بنائے ستم ہوئی
دنیا میں اس طرح کی بھی افتاد کم ہوئی

غصے تھا شیرِ شہ زۂ صحرائے کربلا
چھوڑے تھا گرگ منزل و ماوائے کربلا
تیغ علی تھی معرکہ آرائے کربلا
خالی نہ تھی سروں سے کہیں جائے کربلا
بستی بسی تھی مردوں کے قریے اجاڑ تھے
لاشوں کی تھی زمین سروں کے پیاز تھے

غازی نے رکھ لیا تھا جو شمشیر کے تلے
تھی طرفہ کشمکش فلک پیر کے تلے
چلے سمٹ کے جاتے تھے رہ گیر کے تلے
چھپتی تھی سر جھکا کے کماں تیر کے تلے
اس تیغِ بے دریغ کا جلوہ کہاں نہ تھا
سہمے تھے سب پہ گوشۃ امن و اماں نہ تھا

چاروں طرف کمان کیانی کی وہ ترنگ
رہ رہ کے ابرِشام سے تھی بارشِ خدنگ
وہ شور و صیحہ ابلق و سرنگ
وہ لوں وہ آفتاب کی تابندگی وہ جنگ
پھنکتا تھا دشتِ کیں کوئی دل تھا نہ چین سے
اس دن کی تاب و ترب کوی پوچھے حسین سے

سقے پکارتے تھے یہ مشکیں لیے ادھر
بازارِ جنگ گرم ہے ڈھلتی ہے دوپہر
پیسا جو ہو وہ پانی سے ٹھنڈا کرے جگر
مشکوں پہ دور دور کے گرتے تھے اہلِ شر
کیا آگ لگ گئی تھی جہانِ خراب کو
پیتے تھے سب حسین تڑپتے تھے آب کو

گرمی میں پیاس تھی کہ پھینکا جاتا تھا جگر
اف کبھی کہا کبھی چہرے پہ لی سپر
آنکھوں میں ٹیس اٹھی جو پڑی دھوپ پر نظر
جھپٹے کبھی ادھر کبھی حملہ کیا ادھر
کثرت عرق کے قطروں کی تھی روئے پاک پر
موتی برستے جاتے تھے مقتل کی خاک پر

سیراب چھپتے پھرتے تھے پیاسے کی جنگ سے
چلتی تھی ایک تیغِ علی لاکھ رنگ سے
چمکی جو فرق پر تو نکل آئی تنگ سے
رکتی تھی نے سپر سے نہ آہن نہ سنگ سے
خالق نے منہ دیا تھا عجب آب و تاب کا
خود اس کے سامنے تھا پھپھولا حباب کا

سہمے ہوئے تھے یوں کہ کسی کو نہ تھی خبر
پیکاں کدھر ہے تیر کا مزار ہے کدھر
مردم کی کشمکش سے کمانوں کو تھا یہ ڈر
گوشوں کی ڈھونڈھتی تھی زمیں پر جھکا کے سر
ترکش سے کھینچے تیر کوئی یہ جگر نہ تھا
سیسر پہ جس نے ہاتھ رکھا تن پہ سر نہ تھا

گھوڑوں کی وہ تڑپ وہ چمک تیغ تیز کی
سوسو صفیں کچل گئین جب جست و خیز کی
لاکھوں مین تھی نہ ایک کو طاقت ستیز کی
تھی چار سمت دھوم گریزا گریز کی
آری جو ہو گئی تھیں وہ سب ذوالفقار سے
تیغوں نے منہ پھرا لیے تھے کارزار سے

گھوڑوں کی جست و خیز سے اٹھا غبار زرد
گردوں میں مثل شیشہ ساعت بھری تھی گرد
تودا بنا تھا خاک کا مینائے لاجورد
کوسوں سیاہ تار تھا شب وادی نبرد
پنہاں نظر سے نیرگیتی فروز تھا
ڈھلتی تھی دوپہر کے نہ شب تھا نہ روز تھا

اللہ ری لڑائی میں شوکت جناب کی
سونلائے رنگ میں تھی ضیا آفتاب کی
سوکھیوہ لب کہ پنکھڑیاں تھیں گلاب کی
تصیور ذو الجناح پہ تی بو تراب کی
ہوتا تھا غل جو کرتے تھے نعرے لڑائی میں
بھاگو کہ شیر گونج رہا ہے ترائی میں

پھر تو یہ غل ہوا کہ دہائی حسین کی
اللہ کا غضب تھا لڑائی حسین کی
دریا حسین کا ہے ترائی حسین کی
دنیا حسین کی ہے خدائی حسین کی
بیڑا بچایا آپ نے طوفاں سے نوح کا
اب رحم واسطہ ملے اکبر کی روح کا

اکبر کا نام سن کے جگر پر لگی سناں
آنسو بھر آئے روک لی رہوار کی عناں
مڑکر پکارے لاش پسر گوشۂ زماں
تم نے نہ دیکھی جنگِ پدر اے پدر کی جاں
قسمیں تمہاری روح کی یہ لوگ دیتے ہیں
لو اب تو ذوالفقار کو ہم روک لیتے ہیں

چلایا ہاتھ مار کے زانو پہ ابنِ سعد
اے وا فضیحاتا یہ ہزیمت ظفر کے بعد
زیبا دلاوروں کو نہیں ہے خلافِ وعد
اک پہلوان یہ سنتے ہی گر جا مثالِ رعد
نعرہ کیا کہ کرتا ہوں حملہ امام پر
اے ابنِ سعد لکھ لے ظفر میرے نام پر

بالا قدو کلفت و تنو مند و خیرہ سر
روئیں تن و سیاہ دروں، آہنی کمر
ناوک پیام مگر کے تکش اجل کا گھر
تیغیں ہزار ٹوٹ گءٰن جس پہ وہ سپر
دل میں بدی طبیعتِ بد میں بگاڑ تھا
گھوڑے پہ تھا شقی کہ ہوا پر پہاڑ تھا

ساتھ اس کے اور اسی قد و قامت کا ایک پل
آنکھیں کبود رنگ سیہ ابرووں پہ بل
بدکار بد شعار ستمگار و پرد غل
جنگ آزما بھگائے ہوئے لشکروں کے دل
بھالے لیے کسے ہوئے کمریں ستیز پر
نازاں وہ ضرب گرز پہ یہ تیغ تیز پر

کھنچ جائے شکلِ حرب وہ تدبیر چاہیے
دشمن بھی سب مقر ہوں وہ تقریر چاہیے
تیزی زبان میں صورتِ شمشیر چاہیے
فولاد کا قلم دمِ تحریر چاہیے
نقشہ کھنچے گا صاف صفِ کار زار کا
پانی دوات چاہتی ہے ذوالفقار کا

لشکر میں اضطراب تھا فوجوں میں کھلبلی
ساونت بے حواس ہراسان دھنی بلی
ڈر تھا کہ لو حسین بڑھے تیغ اب چلی
غل تھا ادھر ہیں مرحب و عنتر ادھر علی
کون آج سر بلند ہو اور کون پست ہو؟
کس کی ظفر ہو دیکھیے کس کی شکست ہو؟

آوازی دی یہ ہاتفِ غیبی نے تب کہ ہاں
بسم اللہ اے امیر عرب کے سرور جاں
اٹھی علی کی تیغ دو دم چاٹ کر زباں
بیٹھے درست ہو کے فرس پہ شۂ زماں
واں سے وہ شور بخت بڑھا نعرہ مار کے
پانی بھر آیا منہ میں ادھر ذوالفقار کے

لشکر کے سب جواں تھے لڑائی میں جی لڑائے
وہ بد نظر تھا آنکھوں میں آنکھیں ادھر گڑائے
ڈھالیں لڑیں سپاہ کی یا ابر گڑگڑا ئے
غصے میں آئے گھوڑے نے کبھی دانت کڑکڑکائے
ماری جو ٹاپ ڈر کے ہٹے ہر لعیں کے پاؤں
ماہی پہ ڈگمگائے گادِ زمیں کے پاؤں

نیزہ ہلا کے شاہ پر آیا وہ خود پسند
بشکل کشا کے لال نے کھولے تمام بند
تیر و کمالں سے بھی نہ وا جب وہ بہرہ مند
چلا ادھر کھنچا کہ چلی تیغ سربلند
وہ تیر کٹ گئے جو در آتے تھے سنگ میں
گوشے نہ تھے کماں میں منہ پیکاں خدنگ میں

ظالم اٹھا کے گرز کو آیا جناب پر
طاری ہوا غضب خلفِ بوتراب نے
مارا جو ہاتھ پاؤں جماکر رکاب پر
بجلی گری شقی کے سرِ پر عتاب پر
بد ہاتھ میں شکست ظفر نیک ہاتھ میں
ہاتھ اڑ کے جا پڑا کئی ہاتھ ایک ہاتھ میں

کچھ دست پاچہ ہو کے چلا تھا وہ نابکار
پنجے سے پر اجل کے کہاں جا سکے شکار
واں اس نے با میں ہاتھ میں لی تیغِ آبدار
یاں سر سے آئی پشت کے فقروں پہ ذوالفقار
قرباں تیغِ تیز شۂ نامدار کے
دو ٹکڑے تھے سوار کے دو رہوار کے

پھر دوسرے پہ گزر اٹھا کر پکارے شاہ
کیوں ضرب ذوالفقار پہ تونے بھی کی نگاہ
سرشار تھا شرابِ تکبر سے رو سیاہ
جاتا کہاں کہ موت تو رو کے ہوئے تھی راہ
غل تھا اسے اجل نے بڑھایا جو گھیر کے
لو دوسرا شکار چلا منہ میں شیر کے

آتا تھا وہ کہ اسپِ شۂ دین پلٹ پڑا
ثابت ہوا کہ شیرِ گرسنہ جھپٹ پڑا
تیغہ شقی نے ڈھال پہ مارا تو پٹ پڑا
ضربت پڑی کی گنبد دوار پھٹ پڑا
پیوندِ صدر زین جرو فرق ہوگیا
گھوڑا زمین میں سینے تلک غرق ہوگیا

پریوں سے قاف چھوٹ گیا اور جنوں سے گھر
شیروں سے دشتِ گررگ سے بن اژدوں سے در
شاہیں و کبک چھپ گئے اک جا ملا کے سر
اڑ کر گرے جزیروں میں دریا کے جانور
سمٹے پہاڑ منہ کو جا دامن سے ڈھانپ کے
سیمرغ نے گرا دیے پر کانپ کانپ کے

آئی صدائے غیب کہ شپیر مرحبا
اس ہاتھ کے لیے تھی یہ شمشیر مرحبا
یہ آبرو یہ جنگ یہ توقیر مرحبا
دکھلا دی ماں کے دودھ کی تاثیر مرحبا
غالب کیا خدا نے تجھے کائنات پر
بس خاتمہ جہاد کا ہے تیری ذات پر

بس اب نہ کردِ غا کی ہوس اے حسین بس
دم بے ہوا میں چند نفس اے حسین بس
گرمی سے ہانپتا ہے فرس اے حسین بس
وقتِ نمازِ عصر ہے بس اے حسین بس
پیاسا لڑا نہیں کوئی یوں اژدھام میں
اب اہتمام چاہیے امت کے کام میں

لبیک کہہ کے تیغ رکی شہ نے میان میں
پلٹی سپاہ آئی قیامت جہان میں
پر سرکشوں نے تیر ملائے میان میں
پھر گل گئے لپٹ کے پھر ہرے نشان میں
بیکس حسین ظلم شعاروں میں گھر گئے
مولا تمہارے لاکھ سواروں میں گھر گئے

سینے پہ سامنے سے چلے دس ہزار تیر
چھاتی پہ لگ گئے کئی سو ایک بار تیر
پہلو کے پار برچھیاں سینے کے پار تیر
پڑتے دس جو کھینچتے تھے تن سے چار تیر
یوں تھے خدنگ ظل الٰہی کے جسم پر
جس طرح خانہ ہوتے ہیں ساہی کے جسم پر

چلتے تھے چار سمت سے بھالے حسین پر
ٹوٹے ہوئے تھے برچھیوں والے حسین پر
قاتل تھے خنجروں کو نکالے حسین پر
یہ دکھ نبی ک گود کے پالے حسین پر
تیرِ ستم نکالنے والا کوئی نہ تھا
گرتے تھے اور سنبھالنے والا کوئی نہ تھا

لاکھوں میں ایک بیکس و دلگیر ہائے ہائے
فرزندِ فاطمہ کی یہ توقیر ہائے ہائے
بھالے وہ اور وہ پہلو شپیر ہائے ہائے
وہ زہر میں بجھائے ہوئے تیر ہائے ہائے
غصے میں تھے جو فوج کے سرکش بھرے ہوئے
خالی کیے حسین پہ ترکش بھرے ہوئے

وہ گرد تھے جو بھاگتے تھے وقتِ جنگ
اک سنگ دل نے پاس سے مارا جبیں پہ سنگ
صدمے سے زرد ہو گیا سبطِ نبی کا رنگ
ماتھے پہ ہاتھ تھا کہ گلے پر لگا خدنگ
تھا ما گلا جناب نے ماتھے کو چھوڑ کے
نکلا وہ تیری حلقِ مبارک کو توڑ کے

لکھا ہے تین پھال کا تھا ناوکِ ستم
منہ کھل گیا الٹ گئی گردن رکا جو دم
کھینچی سری لگے کی طرف سے بچشم نم
بھالیں نکالیں پشت کی جانب سے ہو کے خم
ابلا جو خوں نکلتا ہوا دم شہر گیا
چلو رکھا ہو زخم کے نیچے تو بھر گیا

دشمن تھا شہ کا اعور سلمیٰ عد دے دیں
سر پر لگائی تیغ کہ شق ہو گئی جبیں
ماری جگر پہ ابنِ انس نے ستانِ کیں
بھاگا کڑو کے کوکھ میں برچھی کو اک لعیں
گھوڑے پہ ڈگمگا کے جو حضرت نے آہ کی
تھرا گئی ضریح رسالت پناہ کی

گرتے ہیں اب حسین فرس پر سے ہے غضب
نکلی رکاب پائے مطہر سے ہے غضب
پہلو شگافتہ ہوا خنجر سے ہے غضب
غش میں جھکے عمامہ گرا سر سے ہے غضب
قرآں رحل زیں سے سرِ فرش گر پڑا
دیوارِ کعبہ بیٹھ گئی عرش گر پڑا

جنگل سے آئی فاطمہ زہرا کی یہ صدا
امت نے مجھ کو لوٹ لیا وا محمدا
اس وقت کون حق محبت کرے ادا
ہے ہے یہ ظلم اور دو عالم کا مقتدا
انیس سو ہیں زخم تن چاک چاک پر
زینب نکل حسین تڑپتا ہے خاک پر

پردہ الٹ کے بنتِ علی نکلی ننگے سر
لرزاں قدم، خمیدہ کمر، غرق خون جگر
چاروں طرف پکارتی تھی سر کو پیٹ کر
اے کربلا بتا، ترا مہمان ہے کدھر
اماں قدم اب اٹھتے نہیں تشنہ کام کے
پہونچا دو الش پر مرے بازو کو تھا کے

اس وقت سب جہاں مری آنکھوں میں ہے سیاہ
لوگو! خدا کے واسطے مجھ کو بتاؤ راہ
سید کدھر تڑپتا ہے اماں کدھر ہیں آہ؟
کس سمت ہے نبی کے نواسے کی قتل گاہ؟
شعلے دل و جگر سے نکلتے ہیں آہ کے
یہ کون نام لیتا ہے میرا کراہ کے

کس نے صدا یہ دی کہ بہن اس طرف نہ آؤ
بس اب سفر قریب ہے للہ گھر میں جاؤ
اب ڈوبتی ہے آل رسولِ خدا کی ناؤ
یا مرتضیٰ غریبوں کے بیڑے کو تم بچاؤ
اب چھوڑ یو نہ دشتِ بلا میں حسین کو
یا فاطمہ چھپا لو روا میں حسین کو

بنتِ علی تو پیٹتی پھرتی تھی ننگے سر
کٹتا تھا نورِ چشم علی کا گلا ادھر
زینب کو منع کرتے تھے ہر چند اہلِ شر
لیکن وہ دوڑی جاتی تھی تھامے ہوئے جگر
پہونچی جو قتل گاہ میں اس روک ٹوک پر
دیکھا سرِ حسین کو نیزے کی نوک پر

نیزے کے نیچے جا کے پاری وہ سوگوار
سید تری لہو بھری صورت کے میں نثار
ہے ہے گلے پہ چل گئی بھیا چھری کی دھار
بھولے بہن کو اے اسدِ حق کے یادگار
صدقے گئی لٹا گئے گھر وعدہ گاہ میں
جنبش لبوں کو ہے ابھی یاد آلہ میں

بھیا سلام کرتی ہے خواہر جواب دو
چلا رہی ہے دخترِ حیدر جواب دو
سوکھی زبان سے بہرِ پیمبر جواب دو
کیونکر جئے گی زینبِ مضطر جواب دو
جز مرگ دردِ ہجر کا چارا نہیں کوئی
میرا تو اب جہاں میں سہارا نہیں کوئی

بھیا میں اب کہاں سے تمہیں لاؤں کیا کروں
کیا کہہ کے اپنے دل کو میں سمجھاؤں، کیا کروں؟
کس کی دُہائی دوں کسے چلاؤں کیا کروں؟
بستی پرائے ہے ، میں کدھر جاؤں کیا کروں؟
دنیا تمام اجڑ گئی، ویرانہ ہو گیا
بیٹھوں کہاں کہ گر تو عزا خانہ ہو گیا

ہے ہے تمہارے آگے نہ خواہر گذر گئی
بھیا بتاؤ کیا تہ خنجر گذر گئی؟
آئی صدا نہ پوچھو جو ہم پر گذر گئی
صد شکر جو گذر گئی بہتر گذر گئی
سر کٹ گیا ہمیں تو الم سے فراغ ہے
گرہے تو بس تمہاری جدائی کا داغ ہے

گھر لوٹنے کو آئے گی اب فوجِ نابکار
کہیو نہ کچھ زباں سے، بجز شکرِ کردگار
خیمہ میں جب کہ آگ لگادیں ستم شعار
رہیو مری یتیم سیکنۂ سے ہوشیار
بے زار ہے وہ خستہ جگر اپنی جان سے
باندھے نہ کوئی اس کا گلا ریسمان سے

بس اے انیسؔ ضعف سے لرزاں ہے بند بند
عالم کو یادگار رہیں گے یہ چند بند
نکلے قلم سے ضعف میں کیا کیا بلند بند
عالم پسند بن ہیں سلطان پسند بند
یہ فصل اور یہ بزمِ عزا یادگار
پیری کے ولولے ہیں خزاں کی بہار ہے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.