جب میں سنا کہ یار کا دل مجھ سے ہٹ گیا

جب میں سنا کہ یار کا دل مجھ سے ہٹ گیا
by نظیر اکبر آبادی

جب میں سنا کہ یار کا دل مجھ سے ہٹ گیا
سنتے ہی اس کے میرا کلیجہ الٹ گیا

فرہاد تھا تو شیریں کے غم میں موا غریب
لیلیٰ کے غم میں آن کے مجنوں بھی لٹ گیا

میں عشق کا جلا ہوں مرا کچھ نہیں علاج
وہ پیڑ کیا ہرا ہو جو جڑ سے اکھٹ گیا

اتنا کوئی کہے کہ دوانے پڑا ہے کیا
جا دیکھ ابھی ادھر کوئی پریوں کا غٹ گیا

چھینا تھا دل کو چشم نے لیکن میں کیا کروں
اوپر ہی اوپر اس صف مژگاں میں پٹ گیا

کیا کھیلتا ہے نٹ کی کلا آنکھوں آنکھوں میں
دل صاف لے لیا ہے جو پوچھا تو نٹ گیا

آنکھوں میں میری صبح قیامت گئی جھمک
سینے سے اس پری کے جو پردہ الٹ گیا

سن کر لگی یہ کہنے وہ عیار نازنیں
کیا بولیں چل ہمارا تو دل تجھ سے پھٹ گیا

جب میں نے اس صنم سے کہا کیا سبب ہے جان
اخلاص ہم سے کم ہوا اور پیار گھٹ گیا

ایسی وہ بھاری مجھ سے ہوئی کون سی خطا
جس سے یہ دل اداس ہوا جی اچٹ گیا

آنکھیں تمہاری کیا پھریں اس وقت میری جان
سچ پوچھئے تو مجھ سے زمانہ الٹ گیا

عشاق جاں نثاروں میں میں تو امام ہوں
یہ کہہ کے میں جو اس کے گلے سے لپٹ گیا

کتنا ہی اس نے تن کو چھڑایا جھڑک جھڑک
پر میں بھی قینچی باندھ کے ایسا چمٹ گیا

یہ کشمکش ہوئی کہ گریباں مرا ادھر
ٹکڑے ہوا اور اس کا دوپٹہ بھی پھٹ گیا

آخر اسی بہانے ملا یار سے نظیرؔ
کپڑے بلا سے پھٹ گئے سودا تو پٹ گیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse