جب نظر اس کی آن پڑتی ہے
جب نظر اس کی آن پڑتی ہے
زندگی تب دھیان پڑتی ہے
جھیل لیتے ہیں عاشق اے فرہاد
جس کے سر جیسی آن پڑتی ہے
ہے جفا سے غرض اسے اتنی
کہ وفا امتحان پڑتی ہے
نظر ان مہ وشاں کی ہے ظالم
کیا غضب آن بان پڑتی ہے
قد زاہد نظر میں چلے بعد
اتری سی کچھ کمان پڑتی ہے
بات اس دل کے درد کی یارو
گفتگو میں ندان پڑتی ہے
ایک کے منہ سے جس گھڑی نکلی
پھر تو سو کی زبان پڑتی ہے
لیکن اتنا کوئی کہے مجھ سے
کبھو اس کے بھی کان پڑتی ہے
بے ثباتی زمانے کی ناچار
کرنی مجھ کو بیان پڑتی ہے
گرم جوشیٔ دوستاں بہ نظر
آتش کاروان پڑتی ہے
دل سے پوچھا یہ میں کہ عشق کی راہ
کس طرف مہربان پڑتی ہے
کہا ان نے کہ نے بہ ہندستاں
نے سوئے اصفہان پڑتی ہے
یہ دوراہا جو کفر و دیں کا ہے
دونوں کے درمیان پڑتی ہے
منزلت شعر کی ترے سوداؔ
یوں بہ وہم و گمان پڑتی ہے
نہیں عیسیٰؔ تو پر سخن سے ترے
تن بے جاں میں جان پڑتی ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |