جب نہ تب سنئے تو کرتا ہے وہ اقرار بغیر
جب نہ تب سنئے تو کرتا ہے وہ اقرار بغیر
گفتگو ہم سے اسے پر نہیں انکار بغیر
بزم میں رات بہت سادہ و پر فن تھے ولے
گرمیٔ بزم کہاں اس بت عیار بغیر
دیکھ بیمار کو تیرے یہ طبیبوں نے کہا
ہو چکی اس کو شفا شربت دیدار بغیر
جان پر آ بنی ہمدم مری خاموشی سے
بات کچھ بن نہیں آتی ہے اب اظہار بغیر
جس کی خاطر کے لئے یار سب اغیار ہوئے
کیوں کہ دیوانہؔ بھلا رہئے اب اس یار بغیر
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |