جب نہ جیتے جی مرے کام آئے گی
جب نہ جیتے جی مرے کام آئے گی
کیا یہ دنیا عاقبت بخشائے گی
جب ملے دو دل مخل پھر کون ہے
بیٹھ جاؤ خود حیا اٹھ جائے گی
گر یہی ہے اس گلستاں کی ہوا
شاخ گل اک روز جھونکا کھائے گی
داغ سودا ایک دن دے گا بہار
فصل اس گل کی شگوفہ لائے گی
کچھ تو ہوگا ہجر میں انجام کار
بے قراری کچھ نہ کچھ ٹھہرائے گی
صندلی رنگوں سے مانا دل ملا
درد سر کی کس کے ماتھے جائے گی
خاکساروں سے جو رکھے گا غبار
او فلک بدلی تری ہو جائے گی
جب کرے گا گرمیاں وہ شعلہ رو
شمع محفل دیکھ کر جل جائے گی
جاں نکل جائے گی تن سے اے نسیمؔ
گل کو بوئے گل ہوا بتلائے گی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |