جب کہ فرقت میں موت آتی ہے

جب کہ فرقت میں موت آتی ہے
by میر مظفر حسین ضمیر

جب کہ فرقت میں موت آتی ہے
حسرت وصل ساتھ جاتی ہے

کیوں صبا قبر بے کساں پہ کبھی
نہیں دو پھول بھی چڑھاتی ہے

بھول جاتی ہے قبر کی ظلمت
یاد زلف سیہ جو آتی ہے

جو ترا غم ہمیشہ کھاتا تھا
اب اسے خاک گور کھاتی ہے

کون اس خاک پر خراماں ہے
روح پھولے نہیں سماتی ہے

یہاں نقشہ بگڑ گیا اپنا
وہ پری آپ کو بناتی ہے

نہ چراغاں ہو قبر پر تو کیا
بے کسی تو جگر جلاتی ہے

جا کے کر دو قدم تو استقبال
تیرے کشتہ کی لاش آتی ہے

نہ پدر کو خبر نہ مادر کو
بے کسی کیا مزے دکھاتی ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse