جب کے رسوا ہوئے انکار ہے سچ بات میں کیا
جب کے رسوا ہوئے انکار ہے سچ بات میں کیا
اے صنم لطف ہے پردے کی ملاقات میں کیا
کوئی اندھا ہی تجھے ماہ کہے اے خورشید
فرق ہوتا نہیں انسان سے دن رات میں کیا
یار نے وعدۂ فردائے قیامت تو کیا
شک ہے اے نالۂ دل تیری کرامات میں کیا
کوئی بت خانے کو جاتا ہے کوئی کعبہ کو
پھر رہے گبر و مسلماں ہیں تری گھات میں کیا
ایک مدت سے ہوں سائل ترے دروازے پر
بوسہ یا گالی ملے گا مجھے خیرات میں کیا
ایسی اونچی بھی تو دیوار نہیں گھر کی ترے
رات اندھیری کوئی آوے گی نہ برسات میں کیا
دو گھڑی کی جو ملاقات تھی وہ بھی موقوف
ایسا پڑتا تھا خلل یار کی اوقات میں کیا
پڑھ کے خط اور بھی مایوس ہوئے وصل سے ہم
یار نے بھیجا سفر سے ہمیں سوغات میں کیا
آتش مست جو مل جائے تو پوچھوں اس سے
تو نے کیفیت اٹھائی ہے خرابات میں کیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |