جب ہم نشیں ہمارا بھی عہد شباب تھا

جب ہم نشیں ہمارا بھی عہد شباب تھا
by نظیر اکبر آبادی

جب ہم نشیں ہمارا بھی عہد شباب تھا
کیا کیا نشاط و عیش سے دل کامیاب تھا

حیرت ہے اس کی زود روی کیا کہیں ہم آہ
نقش طلسم تھا وہ کوئی یا حباب تھا

تھا جب وہ جلوہ گر تو دل و جاں میں دم بدم
عشرت کی حد نہ عیش و طرب کا حساب تھا

تھے باغ زندگی کے اسی سے ہی آب و رنگ
دیوان عمر کا بھی وہی انتخاب تھا

اپنی تو فہم میں وہی ہنگام اے نظیرؔ
مجموعۂ حیات کا لب لباب تھا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse