جب ہو چکی شراب تو میں مست مر گیا
جب ہو چکی شراب تو میں مست مر گیا
شیشے کے خالی ہوتے ہی پیمانہ بھر گیا
نے قاصد خیال نہ پیک نظر گیا
ان تک میں اپنی آپ ہی لے کر خبر گیا
روح روان و جسم کی صورت میں کیا کہوں
جھونکا ہوا کا تھا ادھر آیا ادھر گیا
طوفان نوح اس میں ہو یا شور حشر ہو
ہوتا جو کچھ ہے ہوگا جو گزرا گزر گیا
سمجھا ہے حق کو اپنے ہی جانب ہر ایک شخص
یہ چاند اس کے ساتھ چلا جو جدھر گیا
شوریدگی سے میری یہاں تک وہ تنگ تھے
روٹھا جو میں تو خیر منائی کہ شر گیا
میں نے بھی آنکھیں دیکھی ہیں پریوں کی جاؤ بھی
تم نے دکھائی آنکھ مجھے اور میں ڈر گیا
گزرا جہاں سے میں تو کہا سن کے یار نے
قصہ گیا فساد گیا درد سر گیا
کاغذ سیاہ کرتے ہو کس کے لیے نسیمؔ
آیا جواب خط تمہیں اور نامہ بر گیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |