جدا نہیں ہے ہر اک موج دیکھ آب کے بیچ
جدا نہیں ہے ہر اک موج دیکھ آب کے بیچ
حباب بحر میں ہے بحر ہے حباب کے بیچ
لگا ہے جس سے مرے دل میں عشق کا کانٹا
ہوں مثل ماہیٔ بے تاب پیچ و تاب کے بیچ
کسو کے دل کی عمارت کا فکر کر منعم
بنا نہ گھر کو تو اس خانۂ خراب کے بیچ
ہر ایک چلنے کو یاں مستعد ہے شاہ سوار
زمیں پہ پاؤں ہے اک دوسرا رکاب کے بیچ
برنگ شمع چھپے حسن جلوہ گر کیوں کر
ہزار اس کو رکھیں برقع و نقاب کے بیچ
نصیرؔ آنکھوں میں اپنی لگے ہے یوں دو جہاں
خیال دیکھتے ہی جیسے شب کو خواب کے بیچ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |