جسم اور روح

جسم اور روح (1955)
by سعادت حسن منٹو
319983جسم اور روح1955سعادت حسن منٹو

مجیب نے اچانک مجھ سے سوال کیا، ’’کیا تم اس آدمی کو جانتے ہو؟‘‘

گفتگو کا موضوع یہ تھا کہ دنیا میں ایسے کئی اشخاص موجود ہیں جو ایک منٹ کے اندر اندر لاکھوں اور کروڑوں کو ضرب دے سکتے ہیں، ان کی تقسیم کرسکتے ہیں۔ آنے پائی کا حساب چشم زدن میں آپ کو بتا سکتے ہیں۔

اس گفتگو کے دوران میں مغنی یہ کہہ رہا تھا، ’’انگلستان میں ایک آدمی ہے جو ایک نظر دیکھ لینے کے بعد فوراً بتا دیتا ہے کہ اس قطعہ زمین کا طول و عرض کیا ہے۔۔۔رقبہ کتنا ہے ۔۔۔اس نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ اپنی اس خداداد صلاحیت سے تنگ آ گیا ہے۔ وہ جب بھی کہیں باہر،کھلے کھیتوں میں نکلتا ہے تو ان کی ہریالی اور ان کا حسن اس کی نگاہوں سے اوجھل ہو جاتا ہے اور وہ اس قطعہ زمین کی پیمائش اپنی آنکھوں کے ذریعے شروع کر دیتا ہے۔ ایک منٹ کے اندر وہ اندازہ کر لیتا ہے کہ زمین کا یہ ٹکڑا کتنا رقبہ رکھتا ہے، اس کی لمبائی کتنی ہے چوڑائی کتنی ہے ، پھر اسے مجبوراً اپنے اندازے کا امتحان لینا پڑتا ہے۔ فیٹر سٹیپ کے ذریعے سے اس خطۂ زمین کو ماپتا اور وہ اس کے اندازے کے عین مطابق نکلتا۔ اگر اس کا اندازہ غلط ہوتا تو اسے بہت تسکین ہوتی۔ بعض اوقات فاتح اپنی شکست سے بھی ایسی لذت محسوس کرتا ہے جو اسے فتح سے نہیں ملتی۔ اصل میں شکست دوسری شاندار فتح کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔

میں نے مغنی سے کہا، ’’تم درست کہتے ہو۔۔۔دنیا میں ہر قسم کے عجائبات موجود ہیں۔۔۔‘‘

میں کچھ اور کہنا چاہتا تھا کہ مجیب نے جو اس گفتگو کے دوران کافی پی رہا تھا، اچانک مجھ سے سوال کیا، ’’کیا تم اس آدمی کو جانتے ہو؟‘‘

میں سوچنے لگا کہ مجیب کس آدمی کے متعلق مجھ سے پوچھ رہا ہے، حامد۔۔۔ نہیں، وہ آدمی نہیں میرا دوست ہے۔

عباس، اس کے متعلق کچھ کہنے سننے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوسکتی تھی۔ شبیر، اس میں کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی۔ آخر یہ کس آدمی کا حوالہ دیا گیا تھا۔

میں نے مجیب سے کہا، ’’تم کس آدمی کا حوالہ دے رہے ہو؟‘‘

مجیب مسکرایا، ’’تمہارا حافظہ بہت کمزور ہے۔‘‘

’’بھئی، میرا حافظہ تو بچپن سے ہی کمزور رہا ہے۔ تم پہیلیوں میں باتیں نہ کرو۔۔۔ بتاؤ وہ کون آدمی ہے جس سے تم میرا تعارف کرانا چاہتے ہو۔‘‘

مجیب کی مسکراہٹ میں اب ایک طرح کا اسرار تھا، ’’بوجھ لو!‘‘

’’ میں کیا بوجھوں گا جبکہ وہ آدمی تمہارے پیٹ میں ہے۔‘‘

عارف، اصغر اور مسعود بے اختیار ہنس پڑے۔ عارف نے مجھ سے مخاطب ہو کر کہا، ’’وہ آدمی اگر مجیب کے پیٹ میں ہے تو آپ کو اس کی پیدائش کا انتظار کرنا پڑے گا۔‘‘

میں نے مجیب کی طرف ایک نظر دیکھا اور عارف سے مخاطب ہوا، ’’میں اپنی ساری عمر اس مہدی کی ولادت کا انتظار نہیں کرسکتا ہوں۔‘‘

مسعود نے اپنے سگریٹ کو ایش ٹرے کے قبرستان میں دفن کرتے ہوئے کہا، ’’دیکھیے صاحبان! ہمیں اپنے دوست مسٹرمجیب کی بات کا مذاق نہیں اڑانا چاہیے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ مجیب سے مخاطب ہوا، ’’مجیب صاحب فرمائیے آپ کو کیا کہنا ہے۔۔۔ ہم سب بڑے غور سے سنیں گے۔‘‘

مجیب تھوڑی دیر خاموش رہا۔ اس کے بعد اپنا بجھا ہوا چرٹ سلگا کر بولا، ’’معذرت چاہتا ہوں کہ میں نے اس آدمی کے متعلق آپ سے پوچھا جسے آپ جانتے نہیں۔‘‘

میں نے کہا، ’’مجیب تم کیسی باتیں کرتے ہو، بہر حال، تم اس آدمی کو جانتے ہو۔۔۔؟‘‘

مجیب نے بڑے وثوق کے ساتھ کہا، ’’بہت اچھی طرح ۔۔۔جب ہم دونوں برما میں تھے تو دن رات اکٹھے رہتے تھے۔ عجیب و غریب آدمی تھا۔‘‘

مسعود نے پوچھا، ’’کس لحاظ سے؟‘‘

مجیب نے جواب دیا، ’’ہر لحاظ سے۔۔۔ اس جیسا آدمی آپ نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا ہوگا۔‘‘

میں نے کہا، ’’بھئی مجیب اب بتا بھی دو وہ کون حضرت تھے؟‘‘

’’بس حضرت ہی تھے۔‘‘

عارف مسکرایا، چلو قصہ ختم ہوا۔۔۔ وہ حضرت تھے، اور بس۔۔۔‘‘

مسعود یہ جاننے کے لیے بیتاب تھا کہ وہ حضرت کون تھا، ’’بھئی مجیب، تمہاری ہر بات نرالی ہوتی ہے۔ تم بتاتے کیوں نہیں ہو کہ وہ کون آدمی تھا جس کا ذکر تم نے اچانک چھیڑ دیا!‘‘

مجیب طبعاً خاموشی پسند تھا۔ اس کے دوست احباب ہمیشہ اس کی طبیعت سے نالاں رہتے۔۔۔ لیکن اس کی باتیں جچی تلی ہوتی تھیں۔ تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد اس نے کہا، ’’معذرت خواہ ہوں کہ میں نے خواہ مخواہ آپ کو اس مخمصے میں گرفتار کر دیا۔۔۔ بات در اصل یہ ہے کہ جب یہ گفتگو شروع ہوئی تو میں کھو گیا۔ مجھے وہ زمانہ یاد آگیا جس کو میں کبھی نہیں بھول سکتا۔‘‘

میں نے پوچھا، ’’وہ ایسا زمانہ کون سا تھا؟‘‘

مجیب نے ایک لمبی کہانی بیان کرنا شروع کر دی، ’’اگر آپ سمجھتے ہوں کہ اس زمانے سے میری زندگی کے کسی رومان کا تعلق ہے تو میں آپ سے کہوں گا کہ آپ کم فہم ہیں۔‘‘

میں نے مجیب سے کہا، ’’ہم تو آپ کے فیصلے کے منتظر ہیں۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کم فہم ہیں تو ٹھیک ہے۔ لیکن وہ آدمی۔‘‘

مجیب مسکرایا، ’’وہ آدمی آدمی تھا۔۔۔ لیکن اس میں خدا نے بہت سی قوتیں بخشی تھیں۔‘‘

مسعود نے پوچھا، ’’مثال کے طور پر۔۔۔‘‘

’’مثال کے طور پر یہ کہ وہ ایک نظر دیکھنے کے بعد بتا سکتا تھا کہ آپ نے کس رنگ کا سوٹ پہنا تھا، ٹائی کیسی تھی، آپ کی ناک ٹیڑھی تھی یا سیدھی۔۔۔ آپ کے کس گال پرکہاں اور کس جگہ تل تھا، آپ کے ناخن کیسے ہیں، آپ کی داہنی آنکھ کے نیچے زخم کا نشان ہے، آپ کی بھنویں منڈی ہوئی ہیں،موزے فلاں ساخت کے پہنے ہوئے تھے ،قمیص پوپلین کی تھی مگر گھر میں دھلی ہوئی۔‘‘

یہ سن کر میں نے واقعتا محسوس کیا کہ جس شخص کا ذکر مجیب کر رہا ہے، عجیب و غریب ہستی کا مالک ہے۔ چنانچہ میں نے اس سے کہا، ’’بڑا معرکہ خیز آدمی تھا۔‘‘

’’جی ہاں، بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ۔۔۔ اس کو اس بات کا زعم تھا کہ اگر وہ کوئی منظر، کوئی مرد ،کوئی عورت صرف ایک نظر دیکھ لے تو اسے من و عن اپنے الفاظ میں بیان کر سکتا ہے جو کبھی غلط نہیں ہوں گے۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کا اندازہ ہمیشہ درست ثابت ہوتا تھا۔‘‘

میں نے پوچھا، ’’کیا یہ واقعی درست تھا۔‘‘

’’سو فیصد۔۔۔‘‘ ایک مرتبہ میں نے اس سے بازار میں پوچھا، ’’یہ لڑکی جو ابھی ابھی ہمارے پاس سے گزری ہے ،کیا تم اس کے متعلق بھی تفصیلات بیان کرسکتے ہو؟‘‘

میں اس لڑکی سے ایک گھنٹہ پہلے مل چکا تھا۔ وہ ہمارے ہمسائے مسٹر لوجوائے کی بیٹی تھی۔ اور میری بیوی سے سلائی کے مستعار لینے آئی تھی۔ میں نے اسے غور سے دیکھا ،اس لیے بغرض امتحان میں نے مجیب سے یہ سوال کیا تھا۔

مجیب مسکرایا، ’’تم میرا امتحان لینا چاہتے ہو؟‘‘

’’ نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ یہ بات نہیں۔۔۔ میں۔۔۔ میں۔۔۔‘‘

’’نہیں تم میرا امتحان لینا چاہتے ہو۔ خیرسنو! وہ لڑکی جو ابھی ابھی ہمارے پاس سے گزری ہے اور جسے میں اچھی طرح نہیں دیکھ سکا ، مگر لباس کے متعلق کچھ کہنا فضول ہے، اس لیے کہ ہروہ شخص جس کی آنکھیں سلامت ہوں اور ہوش و حواس درست ہوں کہہ سکتا ہے کہ وہ کس قسم کا تھا۔ ویسے ایک چیز جو مجھے اس میں خاص طور پر دکھائی دی، وہ اس کے داہنے ہاتھ کی چھنگلیا تھی۔ اس میں کسی قدر خم ہے، بائیں ہاتھ کے انگوٹھے کا ناخن مضروب تھا۔ اس کے لپ اسٹک لگے ہونٹوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ آرائش کے فن سے محض کوری ہے۔‘‘

مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ اس نے ایک معمولی سی نظر میں یہ سب چیزیں کیسے بھانپ لیں۔۔۔ میں ابھی اس حیرت میں غرق تھا کہ مجیب نے اپنا سلسلۂ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا، ’’اس میں جو خاص چیز مجھے نظر آئی وہ اس کے داہنے گال کا داغ تھا۔۔۔ غالباً کسی پھوڑے کا ہے۔‘‘

مجیب کا کہنا درست تھا۔۔۔ میں نے اس سے پوچھا، ’’یہ سب باتیں جو تم اتنے وثوق سے کہتے ہو، تمہیں کیونکر معلوم ہو جاتی ہیں؟‘‘

مجیب مسکرایا، ’’میں اس کے متعلق کچھ کہہ نہیں سکتا۔ اس لیے کہ میں سمجھتا ہوں ہر آدمی کو صاحبِ نظر ہونا چاہیے۔ صاحبِ نظر سے میری مردا ہر اس شخص سے ہے جو ایک ہی نظر میں دوسرے آدمی کے تمام خدو خال دیکھ لے۔‘‘

میں نے اس سے پوچھا، ’’خدوخال دیکھنے سے کیا ہوتا ہے؟‘‘

’’بہت کچھ ہوتا ہے۔۔۔ خدو خال ہی تو انسان کا صحیح کردار بیان کرتے ہیں۔‘‘

’’کرتے ہوں گے۔ میں تمہارے اس نظریے سے متفق نہیں ہوں۔‘‘

’’نہ ہو۔۔۔ مگر میرا نظریہ اپنی جگہ قائم رہے گا۔‘‘

’’رہے۔۔۔ مجھے اس پر کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔ بہر حال، میں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ انسان غلطی کا پتلا ہے۔۔۔ ہو سکتا ہے تم غلطی پر ہو۔‘‘

’’یار، غلطیاں درستیوں سے زیادہ دلچسپ ہوتی ہیں۔‘‘

’’یہ تمہارا عجیب فلسفہ ہے۔‘‘

’’فلسفہ گائے کا گوبر ہے۔‘‘

’’اور گوبر؟‘‘

مجیب مسکرایا، ’’وہ۔۔۔ وہ۔۔۔ اپلا کہہ لیجیے، جو ایندھن کے کام آتا ہے۔‘‘

ہمیں معلوم ہوا کہ مجیب ایک لڑکی کے عشق میں گرفتار ہوگیا ہے۔ پہلی ہی نگاہ میں اس نے اس کے جسم کے ہر خدوخال کا صحیح جائزہ لے لیا تھا۔ وہ لڑکی بہت متاثر ہوئی جب اسے معلوم ہوا کہ دنیا میں ایسے آدمی بھی موجود ہیں جو صرف ایک نظر میں سب چیزیں دیکھ جاتے ہیں تو وہ مجیب سے شادی کرنے کے لیےرضا مند ہوگئی۔

ان کی شادی ہوگئی۔۔۔ دلہن نے کیسے کپڑے پہنے تھے ، اس کی دائیں کلائی میں کس ڈیزائن کی دست لچھی تھی۔۔۔ اس میں کتنے نگینے تھے۔۔۔ یہ سب تفصیلات اس نے ہمیں بتائیں۔

ان تفصیلات کا خلاصہ یہ ہے کہ ان دونوں میں طلاق ہوگئی۔


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.