جسے دیکھا ترا جویا ہے پیارے
جسے دیکھا ترا جویا ہے پیارے
تجھی کو ڈھونڈھنے کھویا ہے پیارے
قسم ہے دیدۂ گریاں کی مجھ کو
کہ دنیا عالم رویا ہے پیارے
نہال آہ ہوگا دانۂ اشک
اوگے گا وہ جو کچھ بویا ہے پیارے
تجھے دل دے کے میں نے آزمایا
وہ سیکھا جس نے کچھ کھویا ہے پیارے
کسی کے کان بھرنے پر نہ رکھ دھیان
ہر ایک منہ میں زباں گویا ہے پیارے
میں جاگا شب سر گیسو میں ورنہ
جسے کالا ڈسے سویا ہے پیارے
مرا دل جل بجھا شب سے یہاں کوں
چراغ مردہ پر رویا ہے پیارے
نظارہ کب کیا اس چشم تر نے
عبث دامن ترا دھویا ہے پیارے
ملا دو لب کہاں کا آب حیواں
خضر کا راستہ کھویا ہے پیارے
کفن اپنے نسیمؔ کشتہ کا سونکھ
ہر ایک برگ گل بویا ہے پیارے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |