جس دم وہ صنم سوار ہووے

جس دم وہ صنم سوار ہووے
by مرزا محمد رفیع سودا

جس دم وہ صنم سوار ہووے
تا صید حرم شکار ہووے

جو اٹھ نہ سکے تری گلی سے
رہنے دے کہ تا غبار ہووے

محکم تو رزاق بن سکے ہے
گو عمر کہ پائیدار ہووے

وہ قصر تو چاہتا نہیں میں
جس میں گل و گلعذار ہووے

وسعت مرے سینے بیچ اے دہر
ٹک دل کو شگفتہ وار ہووے

سوزن کی نہ جیب کیجو منت
یوں پھٹیو کہ تار تار ہووے

شبنم سے بھرے ہے ساغر گل
گردوں تو خراب و خوار ہووے

پانی نہیں دیتے اس کو ظالم
جو زخمیٔ بے شمار ہووے

ناصح تو قسم لے ہم سے، دل پر
اپنا کبھو اختیار ہووے

کھینچے ہے کوئی بھی تیغ پیارے
جمدھر کہ جب آب دار ہووے

کن زخموں میں زخم ہے کہ جب تک
چھاتی کے نہ وار پار ہووے

کھینچی ہے بھواں نے تیغ مکھ پر
سوداؔ سے کہو نثار ہووے

ویسے ہی کاہے یہ کام گل رو
عاشق ہی نہ گو ہزار ہووے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse