جس شخص کی ہو زیست فقط نام سے تیرے

جس شخص کی ہو زیست فقط نام سے تیرے
by میر حسن دہلوی

جس شخص کی ہو زیست فقط نام سے تیرے
اس شخص کا کیا حال ہو پیغام سے تیرے

گالی ہے کہ ہے سحر کوئی یا کہ ہے افسوں
جی شاد ہوا جاتا ہے دشنام سے تیرے

ہے اپنی خوشی اس میں کہ تو جس میں خوشی ہو
آرام ہے اپنے تئیں آرام سے تیرے

آہستہ قدم رکھیو تو اے ناقۂ لیلیٰ
مجنوں کا بندھا آتا ہے دل گام سے تیرے

جب کوچے میں جا بیٹھتے ہیں تیرے تو اپنی
آنکھیں لگی رہتی ہیں در و بام سے تیرے

ہے اپنے ہمیں کام سے کام اے بت خودکام
ہم کام نہیں رکھتے ہیں کچھ کام سے تیرے

کیا ہجر کی رات آئی کہ مانند چراغاں
پھر جلنے لگے داغ حسنؔ شام سے تیرے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse