جس وقت تو بے نقاب آوے
جس وقت تو بے نقاب آوے
ہوگا کوئی جس کو تاب آوے
کافی ہے نقاب زلف منہ پر
عاشق سے اگر حجاب آوے
کیونکر کہے کوئی حال تجھ سے
ہر بات میں جو عتاب آوے
قاصد سے کہا ہے وقت رخصت
جو وہ بت بے حجاب آوے
لے آئیو گر جواب دیوے
لازم ہے کہ تو شتاب آوے
اے جاں بہ لب رسیدہ اتنا
رہنا ہے کہ تا جواب آوے
بیدارؔ کو تجھ بن اے دل آرام
ہوتا ہی نہیں کہ خواب آوے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |