جس کوں پیو کے ہجر کا بیراگ ہے
جس کوں پیو کے ہجر کا بیراگ ہے
آہ کا مجلس میں اس کی راگ ہے
کیوں نہ ہوئے دل جل کے خاکستر نمن
آتشیں رو کی محبت آگ ہے
اے دل اس کے زہر سیں وسواس کر
زلف نیں ہے بلکہ کالا ناگ ہے
جب سیں لایا عشق نے فوج جنوں
عقل کے لشکر میں بھاگا بھاگ ہے
طالع سکندری رکھتا سراجؔ
روبرو آئینہ رو کیا بھاگ ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |