جس کو پڑی ہو اپنے گریباں کے تار کی
جس کو پڑی ہو اپنے گریباں کے تار کی
روئے خزاں کو خیر منائے بہار کی
معراج اس کو کہیے ہمارے غبار کی
ورنہ یہ خاک اور ہوا کوئے یار کی
پژمردہ پھول ہوں چمن روزگار کا
تصویر ہوں دورنگئ لیل و نہار کی
نیچی نگاہ آڑ میں مژگاں کی الامان
صیاد جیسے گھات میں بیٹھے شکار کی
چین جبین یار کی چھریاں وہیں چلیں
جوں ہی تڑپ بڑھی نگہ انتظار کی
منہ فق ہے اس طرح مری صبح فراق کا
جیسے ہو پہلی شام غریب الدیار کی
بیتابؔ ختم کر گئے استاد نامدار
جادو نگاریاں قلم سحر کار کی
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |