جس کے طالب ہیں وہ مطلوب کہیں بیٹھ رہا
جس کے طالب ہیں وہ مطلوب کہیں بیٹھ رہا
منتظر ہم کو بٹھا خوب کہیں بیٹھ رہا
بس کہ لکھی تھی میں حالت دل گم گشتہ کی
کھو کے قاصد مرا مکتوب کہیں بیٹھ رہا
دیکھیں کیا آنکھ اٹھا کر کہ ہمیں تو ناحق
آنکھ دکھلا کے وہ محبوب کہیں بیٹھ رہا
شام سے جیسے نہاں مہر ہو سو وصل کی رات
منہ چھپا کر وہ اس اسلوب کہیں بیٹھ رہا
ہے مری خانہ نشینی سے یہ گھر گھر مذکور
خیل عشاق کا سرکوب کہیں بیٹھ رہا
جانا میں اس کا نہ آنا کہ سمجھ کر وہ شوخ
بیٹھنے کو مرے معیوب کہیں بیٹھ رہا
بود و باش اپنی کہیں کیا کہ اب اس بن یوں ہے
جس طرح سے کوئی مجذوب کہیں بیٹھ رہا
اول عشق میں صورت یہ بنی جرأتؔ کی
ہو کے آخر کو وہ محجوب کہیں بیٹھ رہا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |