جس کے طالب ہیں وہ مطلوب کہیں بیٹھ رہا

جس کے طالب ہیں وہ مطلوب کہیں بیٹھ رہا
by شیخ قلندر بخش جرات
296719جس کے طالب ہیں وہ مطلوب کہیں بیٹھ رہاشیخ قلندر بخش جرات

جس کے طالب ہیں وہ مطلوب کہیں بیٹھ رہا
منتظر ہم کو بٹھا خوب کہیں بیٹھ رہا

بس کہ لکھی تھی میں حالت دل گم گشتہ کی
کھو کے قاصد مرا مکتوب کہیں بیٹھ رہا

دیکھیں کیا آنکھ اٹھا کر کہ ہمیں تو ناحق
آنکھ دکھلا کے وہ محبوب کہیں بیٹھ رہا

شام سے جیسے نہاں مہر ہو سو وصل کی رات
منہ چھپا کر وہ اس اسلوب کہیں بیٹھ رہا

ہے مری خانہ نشینی سے یہ گھر گھر مذکور
خیل عشاق کا سرکوب کہیں بیٹھ رہا

جانا میں اس کا نہ آنا کہ سمجھ کر وہ شوخ
بیٹھنے کو مرے معیوب کہیں بیٹھ رہا

بود و باش اپنی کہیں کیا کہ اب اس بن یوں ہے
جس طرح سے کوئی مجذوب کہیں بیٹھ رہا

اول عشق میں صورت یہ بنی جرأتؔ کی
ہو کے آخر کو وہ محجوب کہیں بیٹھ رہا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.