جشن تھا عیش و طرب کی انتہا تھی میں نہ تھا
جشن تھا عیش و طرب کی انتہا تھی میں نہ تھا
یار کے پہلو میں خالی میری جا تھی میں نہ تھا
اس نے کب برخاست اے دل محفل معراج کی
کس سے پوچھوں رات کم تھی یا سوا تھی میں نہ تھا
میں تڑپ کر مر گیا دیکھا نہ اس نے جھانک کر
اس ستم گر کو عزیز اپنی حیا تھی میں نہ تھا
وعدہ لے لیتا کہ کھلوانہ نہ مجھ کو ٹھوکریں
عالم ارواح میں جس جا قضا تھی میں نہ تھا
صرف کرتا کس خوشی سے جا کے اس میں اپنی خاک
کیا کہوں جس دن بنائی کربلا تھی میں نہ تھا
منہ نہ کھل سکتا نہ ہوتے ہم کلام ان سے کلیم
عمر بھر حسرت ہی رہتی بات کیا تھی میں نہ تھا
لے گئی تھی مجھ کو حسرت جانب خود رفتگی
جس طرف کو منزل بیم و رجا تھی میں نہ تھا
دل الٹ جاتا مرا یا دم نکل جاتا مرا
شکر ہے جب لن ترانی کی صدا تھی میں نہ تھا
لالہ و گل کو بچا لیتا خزاں سے اے شرفؔ
باغ میں جس وقت نازل یہ بلا تھی میں نہ تھا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |