جفا پر جان دیتے ہیں ستم پر تیرے مرتے ہیں
جفا پر جان دیتے ہیں ستم پر تیرے مرتے ہیں
یہ ناکام محبت سچ تو یہ ہے کام کرتے ہیں
کہیں کیا ہم پہ جو صدمہ گزرتے ہیں گزرتے ہیں
لگایا جس گھڑی دل اس گھڑی کو یاد کرتے ہیں
تماشہ جب سے دیکھا ہے مرے دل کے تڑپنے کا
تماشہ ہے کہ وہ اپنی نظر سے آپ ڈرتے ہیں
نہیں آتے نہ آئیں وہ گئے تاب و تواں جائیں
تجھی پر آج ہم اے بے قراری صبر کرتے ہیں
گلی کوچوں میں تم نے اشتہار عشق پھیلائے
کہ اڑاڑ کر مرے مکتوب کے پرزے بکھرتے ہیں
ادا بے ساختہ ان گیسوؤں کی کچھ نرالی ہے
بنائے سے بگڑتے ہیں سنوارے سے بکھرتے ہیں
نہ پوچھو داغؔ ہم سے انتظار یار کی صورت
یہ آنکھیں جانتی ہیں خوب جو نقشے گزرتے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |