جلتے ہیں اور ہم سیں جب مانگتے ہو پیالہ

جلتے ہیں اور ہم سیں جب مانگتے ہو پیالہ
by شاہ مبارک آبرو

جلتے ہیں اور ہم سیں جب مانگتے ہو پیالہ
ہوتے ہیں داغ دل میں جوں جوں کتے ہو لا لا

بکسا ہے تمام ظالم تجھ چشم کا دنبالا
لاگا ہے اس کے دل میں دیکھا ہے جن میں بھالا

اس شوخ سرو قد کوں ہم جانتے تھے بھولا
مل اوپری طرح سیں کیا دے گیا ہے بالا

اے سرد مہر تجھ سیں خوباں جہاں کے کانپے
خورشید تھرتھرایا اور ماہ دیکھ ہالا

جب سیں ترے ملائم گالوں میں دل دھنسا ہے
نرمی سوں دل ہوا ہے تب سوں روئی کا گالا

فوجاں سیں بڑھ چلے جوں یکا کوئی سپاہی
یوں خال چھوٹ خط سیں مکھ پر رہے نرالا

کیوں کر پڑے نہ میرے گریے کا شور جگ میں
امڈا ہے مجھ نین سیں انجھواں کے ساتھ نالا

جوگی ہوا پے ناتا لالچ کا چھوڑتا نہیں
کہتا ہے سب کوں بابا جپتا پھرے ہے مالا

جھمکی دکھا نگہ کی دل چھین لے چلی ہیں
یہ کس تری انکھیوں کوں سکھلا دیا چھنالا

اشعار آبروؔ کے رشک گہر ہوئے ہیں
داغ سخن سیں اس کو لولو ہوا ہے لالا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse